by خواجہ رکن الدین عشقؔ
کلیات حضرت رکن الدین عشق اور ان کی حیات و شاعری
حصہ-001،002
حصہ-001،002
خواجہ رکن الدین کا لقب مرزا، عرفیت گسیٹا اور تخلص عشق تھا۔ آپ کے نانا خواجہ فرہاد دہلوی حضرت سیدنا امیر ابوالعلا کے مرید و خلیفہ سید دوست محمد برہان پوری کے مرید و خلیفہ تھے۔ آپ کی پیدائش دہلی میں 1127ھ موافق 1715ء میں ہوئی۔ والد کانام شیخ محمد کریم ابن شیخ طفیل تھا۔ ابتدائی تعلیم سلسلہ کے مطابق روحانی اور دینی ہوئی۔ درّانی کے حملہ نے دہلی کو تباہ و برباد کر دیا تھا اسی ھرج و مرج کے بیچ لوگ دہلی کو خیرباد کہنے پر مجبور ہوئے۔ اسی باعث خواجہ رکن الدین عشقؔ بھی مرشدآباد چلے گئے اور نواب میر قاسم کے یہاں ہزار سوار کی افسری کے منصب پر فائز ہوئے۔ فوجی ملازمت ان کو پسند نہ آئی اور یہ عظیم آباد (پٹنہ) تشریف لے گئے۔ وہاں مخدوم منعم پاک کی مجلس میں جانے لگے چوں کہ بچپن سے ان کو اپنے نانا کے مرید و خلیفہ مولانا برہان الدین خدا نما سے بیعت کرنے کی خواہش تھی لہذا خالص پور متصل لکھنؤ گئے اور مولانا برہان الدین خدا نما سے بیعت ہوئے۔ شرف بیعت حاصل کرکے دوبارہ عظیم آباد واپس چلے آئے۔ عظیم آباد اس قدر ان کو پسند آیا کہ اس شہر کو مستقل مسکن بنایا۔ آپ کو مخدوم منعم پاک سے بھی اجازت اور استرشاد حاصل تھا۔ رشد و ہدایت کے لئے خواجہ عشق نے تکیہ پر ایک خانقاہ کی بنیاد ڈالی اور یہ تکیہ عشق کے نام سے مشہور ہوا جسے اب بارگاہ حضرت عشق کہا جاتا ہے۔آپ کا وصال 8 جمادی الاول 1203ھ موافق 1788ء میں تکیہ عشق میں ہوا اور اسی خانقاہ کی محبوب خاک آخری آرام گاہ بنی۔ غلام حسین شورشؔ بھی خواجہ عشق کے بڑے معتقد اور تربیت یافتہ تھے۔ آپ ہی کے ایما پر اپنا مشہور تذکرہ "تذکرۂ شورش" لکھا ہے جس میں عشق کے حالات اور انتخاب کلام پر بحث کی ہے۔ عشق کے رشد و ہدایت کا دائرہ اگر وسیع ہے تو ان کے فنی و لسانی اثرات کا سلسلہ بھی کچھ محدود نہیں ہے۔ مرزا محمد علی فدوی جیسے جید شاعر ان کے شاگرد رشید رہے ہیں۔ ان کی تصانیف میں سات سو صفحات پر مشتمل ایک اردو کا کلیات موجود ہے۔ ایک دیوان فارسی کا اور چند قلمی رسالے جو تصوف پر لکھے گئے ہیں ان کی یادگار ہیں۔ ان میں سے ایک متصوفانہ رسالہ "امواج البحار" بھی ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets