نام افتخار حسین اور مضطر تخلص تھا، اعتبار الملک، اقتدار جنگ بہادر وغیرہ خطاب ملا تھا۔ 1856ء میں خیرآباد، بھارت میں پیدا ہوئے۔ علامہ فضل حق خیرآبادی کے نواسے اور شمس العلما عبدالحق خیرآبادی کے بھانجے تھے، اپنے بڑے بھائی محمد حسین بسمل اور امیر مینائی سے تلمذ حاصل تھا، مضطر ریاست ٹونک کے درباری شاعر تھے، ان کا دیوان شائع نہیں ہوا ہے، پانچ جلدوں پر مشتمل ان کے کلام کا مجموعہ "خرمن" کے نام سے شائع ہو چکا ہے، جاں نثار اختر ان کے فرزند رشید تھے، مضطر خیر آبادی قدرت کی طرف سے شاعرانہ دل و دماغ لے کر آئے تھے۔ آپ کی تعلیم و تربیت آپ کی والدہ ہی نے فرمائی جو علامہ فضل حق خیر آبادی کی بیٹی اور شمس العلما عبدالحق خیر آبادی کی چھوٹی بہن تھیں، اردو، فارسی اور عربی کی زبردست شاعرہ اور فقہ و منطق کی جلیل القدر عالمہ تھیں، آپ نے اپنی والدہ ہی سے تمام علوم درسیہ کی تحصیل و تکمیل کی اور انہیں سے شاعری کے رموز سے آشنا ہوئے، مولانا عبدالحق خیرآبادی اپنی بہن سے فرمایا کرتے تھے کہ اگر تو لڑکا ہوتی تو خیر آباد کا نام روشن ہوتا، دس سال کی عمر میں مضطر خیرآبادی نے شعر کہنا شروع کیا اورا پنی ابتدائی غزلوں پر اپنی والدہ ہی سے اصلاح لیتے رہے، والدہ کے انتقال کے بعد آپ نے ایک غزل امیر مینائی کو بغرض اصلاح بھیجی، امیر مینائی نےصرف مطلع اول کے مصرع اولیٰ میں الفاظ کو مقدم و موخر فرما کرغزل واپس کر دی اور ساتھ ہی اس کے یہ تحریر کیا کہ محض استحساناً تھی آپ بغیر اصلاح غزل پڑھ سکتے ہیں:
مطلع درج ذیل ہے : داغ ہیں سینکڑوں پنہاں دل میں طرفہ پھولا ہے گلستان دل میں
اصلاح ملاحظہ ہو: سینکڑوں داغ ہیں پنہاں دل میں طرفہ پھولا ہے گلستان دل میں
اس کے بعد مضطر نے دوبارہ کوئی غزل اصلاح کے لئے نہ بھیجی، مضطر اکثر و بیشتر مشاعرے کی زینت بنا کرتے تھے اور جس مشاعرے میں جاتے اس کو یادگار بنا دیتے تھے، ریاضؔ ایک مرتبہ گوالیار تشریف لائے تو مضطر نے ایک مشاعرے کا انعقاد کیا، حسب معمول طرح تجویز ہوئی مگر اس کے ساتھ جدت یہ کی گئی کہ ہر ایک غزل کے لیے موضوع مخصوص کر دیا گیا، مضطر نے ریاض کے لئے شراب کا مضمون تجویز کیا مگر ریاض اس پر راضی ہوئے کہ مضطر بھی خود اس موضوع پر غزل تحریر کریں چنانچہ مضطر نے تمام غزل میں شراب کا ہی مضمون باندھا، اس غزل کا ایک شعر مندرجہ ذیل ہے۔
ہمارے میکدے میں خیر سے ہر چیز رہتی ہے
مگر اک تیس دن کے روزے نہیں ہوتے
شرر رامپوری نے رامپور میں بہت وسیع پیمانے پر ایک مشاعرہ منعقد کیا، دو رات مسلسل مشغلۂ سخن جاری رہا، ہندوستان کے تمام باکمال شعرا کا مجمع تھا، مضطر یہاں بھی آفتاب بن کر چمکے اور انہوں نے اس مشاعرے میں نواب حامد علی خاں کی شان میں ایک سو ایک شعر کا طرحی قصیدہ پڑھا جس کا مطلع یہ ہے۔
شام غم گزری نمایاں ہو چلے آثار
صبح اوڑھ لی لیلائے شب نے چادر زرتار
صبح نواب حامد علی خاں پر مضطر کا سحر اس قدر طاری ہوا کہ انہوں نے والیٔ گوالیار سے مضطر کو اپنے دربار کے لئے ہدیہ کرنے کی درخواست کی جب مضطر رامپور تشریف لائے تو شرر نے ایک مشاعرہ کیا جس کی طرح یہ تھی۔
شررؔ تم کو مبارک ہو کہ مضطر رام پور آئے
تھوڑے عرصہ کے بعد مضطر خیرآبادی حاجی وارث علی شاہ کے طالب ہو گئے حاجی وارث علی کے دربار میں اپنی عقیدت کا نذرانہ اس طرح پیش کیا۔
آنکھوں سے کیوں نہ چوموں پائے جناب وارث
بے وارثوں کے وارث آئے جناب وارث
گوالیار کے زمانۂ قیام میں مضطر کو شیخ مسیح اللہ سے بھی ایک خاص لگاؤ پیدا ہو گیا تھا، شیخ بھی انہیں عزیز رکھتے تھے، مضطر خیرآبادی نے ہندی شاعری میں طبع آزمائی کی ہے، ہندی شاعری میں ملہار، ٹھمری، ہولی، وادرا اور بسنت پر بہت کچھ لکھا، مضطر خیرآبادی انتقال سے پہلے کوئی بیس روز قبل اندور سے گوالیار چلے گئے، طبیعت بہت زیادہ خراب تھی، علاج و معالجے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ 16رمضان المبارک 1345ھ موافق 20 مارچ 1927ء کو گوالیار میں شیخ مسیح اللہ کے مزار کے قریب دفن ہوئے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets