ہندوستان کے تیموری خانوادہ میں بادشاہوں کا پیدا ہونا اور عیش عشرت میں زندگی بسر کرنا ایک معمولی سی بات سمجھی جاتی ہے لیکن اگر اس گھرانے میں کوئی صاحب قلم ، صاحب علم، فلسفی ، ادیب اور شاعر پیدا ہو جائے اور وہ بھی تصوف کا دلدادہ تو یہ یقینا تعجب و حیرت کی بات ہے۔ دارا شکوہ تیموریوں کے محلوں میں پیدا ضرور ہوا مگر اس نے اپنی زندگی میاں میر اور ملا شاہ بدخشانی کے بورئے سے منسلک ہوکر گزاری۔ سفینۃ الاولیاء صوفیہ کبار کے مختصر احوال پر مشتمل کتاب ہے جس میں سب سے پہلے نبی اور خلفاء کی مختصر سیرت کو بیان کیا گیا ہے اس کے بعد سلسلہ قادریہ کے اکابرین کا ذکر خیر کیا گیا ہے۔ پھر نقشبندیہ سلسلہ کے بزرگوں کے حالات پھر چشتیہ ، کبرویہ ، سہروردیہ اور ازواج مطہرات کے احوال بیان کئے گئے ہیں۔ یہ صوفیہ کا عمومی تذکرہ ہے۔ دارا شکوہ نے اس کتاب کی تالیف 1640 ء میں کی تھی۔ چونکہ یہ کتاب فارسی میں ہے اسی لئے اس کا سلیس اردو میں ترجمہ محمد وارث کامل نے انجام دیا ہے۔
دارا شکوہ مغل شہنشاہ شہاب الدین شاہ جہاں اول اور ممتاز محل کا بڑا بیٹا اور مغل شاہزادہ تھا۔ مضافات اجمیر میں جمعہ 19 صفر 1024ھ مطابق 20 مارچ 1615ء کو پیدا ہوا۔ 1633ء میں ولی عہد بنایا گیا۔ 1654ء میں الہ آباد کا صوبے دار مقرر ہوا۔ بعد ازاں پنجاب، گجرات، ملتان اور بہار کے صوبے بھی اس کی عملداری میں دئے گئے۔ 1649ء میں قندھار پر ایرانیوں نے قبضہ کر لیا۔ سلطنت دہلی کی دو فوجی مہم انھیں وہاں سے نکالنے میں ناکام رہی تو 1653ء میں دارا شکوہ کو خود اس کے ایما پر قندھار بھیجا گیا۔ اس جنگ میں اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور بحیثیت کمانڈر اس کی شخصیت مجروح ہوئی۔ دارا شکوہ نے شاہ محمد دلربا کے نام اپنے ایک خط میں واضح طور پر تسلیم کیا ہے کہ وہ سرمد، بابا پیارے، شاہ محمد دلربا، میاں باری، محسن فانی کشمیری، شاہ فتح علی قلندر، شیخ سلیمان مصری قلندر اور شاہ محب اللہ صابری الہ آبادی جیسے صوفیا کا دلدادہ تھا اور ان سے خاصی عقیدت بھی رکھتا تھا۔ دارا شکوہ سرمد جیسے بزرگ کا شاگرد تھا۔ فارسی زبان بہت اچھی جانتا تھا۔ وہ خطاط اور ایک بہترین مصنف ہوا ہے۔ 11 ذوالحجہ 1069ھ موافق 30 اگست 1659ء کو وفات پا ئی اور مقبرہ ہمایوں (دہلی) میں دفن ہوا۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets