شاہنامہ نویسی کو یقینا مثنوی نگاری کی معراج کہا جا سکتا ہے۔ منظوم شاہنامہ نویسی کی بنیاد دقیقی طوسی سے شروع ہوتی ہے جو سامانی عہد کا ایک غیر معمولی شاعر تھا ۔ ابھی اس نے کوئی ہزار کے قریب ہی اشعار کہے ہونگے کہ وہ اپنے غلام کے ہاتھوں اپنی بدنیتی کے سبب قتل کر دیا گیا۔ اس کے چند سال بعد سے ہی فردوسی نے اس ادھوری ایرانی تاریخ کے مفاخرات کو منظم کرنا شروع کر دیا تھا اور اس نے اس کام کو مکمل کرنے کے لئے اپنی تمام زندگی صرف کردی۔ مسلسل تیس سال کی محنت شاقہ کے بعد اس نے اس دنیائے ادب کو ایک ایسی مثنوی فراہم کی کہ جسے دنیا شاہنامہ فردوسی کے نام سے یاد کرتی ہے۔ اگر شاہنامہ نویسی میں کسی کو طرہ امتیاز حاصل ہے تو وہ یہی شاہنامہ ہے۔ اس کے بعد سے ہی شاہنامہ نویسی کی اور شاہنامہ نویسوں کی ایک بڑی تعداد اس میدان میں طبع آزمائی کرتی چلی آرہی ہے اور جدید عہد تک بہت سے شاہنامے اس ادب کو نصیب ہوئے مگر جو وقعت شاہنامہ فردوسی کو حاصل ہے اس کا عشر عشیر بھی کسی شاہنامے کو میسر نہ آ سکی ۔ اردو زبان میں حفیظ جالندھری نے شاہنامہ کے لئے ایک الگ زمین ہموار کی جس میں انہوں نے اسلامی حکومت کی فتوحات سے لیکر اس کے ہر ہر پہلو کو نظم کا جامہ پہنایا اور کچھ حد تک یہ جدت لوگوں کو پسند بھی آئی۔ وہیں بہت سے لوگ اس کو شاہنامہ کہنے سے پرہیز کرنے پر مصر ہیں۔ ان کا ماننا یہ ہے کہ اسلامی حکومت کبھی بھی شاہنشاہیت کو قبول نہیں کرتی اس لئے عہد نبوی اور قرون اولی کو ہم شاہنامہ نہیں کہہ سکتے۔ اسی لئے اس کا دوسرا نام "یاد ایام " بھی ہے۔ اس میں اول سے لیکر آخر تک کے اسلامی مفاخرات کے احوال کا ذکر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مفصل احوال بیان کئے گئے ہیں اور اس جلد میں جنگ بدر تک کے کچھ حالات کا ذکر ہے۔ یہ شاہنامہ اردو زبان کا کافی معروف شاہنامہ ہے۔ یہ شاہنامہ اگرچہ فارسی زبان کے شاہنامے کی وقعت کو تو نہیں پہونچتا مگر اردو ادب میں اس جیسا شاہنامہ نہیں لکھا گیا ۔اس لحاظ سے یقینا اس کو ایک اہم اسلامی تاریخ کی حیثیت سے دیکھا جانا چاہئے اور اس کو اخلاقیات کا ایک اعلی نمونہ سمجھا جانا چاہئے۔ یہ شاہنامہ چار جلدوں میں شائع ہوا۔ اس کے ذریعہ حفیط جالندھری نے اسلامی روایات اور قومی شکوہ کا احیا کیا جس پر انہیں فردوسی اسلام کا خطاب دیا گیا۔
نام محمد حفیظ، ابوالاثر کنیت، حفیظ تخلص۔ ۱۴؍جنوری۱۹۰۰ء کو جالندھر میں پیدا ہوئے۔مروجہ دینی تعلیم کے بعد اسکول میں داخل ہوئے۔ حفیظ کو بچپن ہی سے شعروسخن سے دلچسپی تھی۔ مولانا غلام قادر گرامی جوان کے ہم وطن تھے، ان کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا۔کسب معاش کے لیے عطر فروشی، کلاہ سازی، خیاطی، فوج کی ٹھیکیداری، خطوط نویسی ، مزدوری، سنگر سیونگ مشین کمپنی کی مینیجری سب کچھ کرڈالا۔۱۹۲۱ء میں سنگر کمپنی کی ملازمت چھوڑ دی اور وطن واپس آگئے۔ وہاں سے اردو زبان میں ایک ماہانہ رسالہ ’’اعجاز‘‘ جاری کیا جو پانچ ماہ بعد بند ہوگیا۔۱۹۲۲ء میں لاہور آئے۔ان کا شروع سے اس وقت تک شعروادب اوڑھنا بچھونا تھا۔ رسالہ’’شباب‘‘میں ملازمت کرلی۔اس کے بعد ’’نونہال‘ اور ’ہزار داستان‘ کی ادارت ان کے سپرد ہوئی۔ پھر ’پھول‘ اور ’تہذیب نسواں‘ سے منسلک رہے۔ کچھ عرصہ ریاست خیرپور کے درباری شاعر رہے۔ نظم ’’رقاصہ‘‘ وہیں کی یادگار ہے۔ ’’قومی ترانہ‘‘ کے خالق کی حیثیت سے حفیظ کو بہت شہر ت ملی۔ ۲۱؍دسمبر ۱۹۸۲ء کو لاہور میں انتقال کرگئے۔چند تصانیف یہ ہیں: ’نغمۂ زار‘، ’سوز وساز‘، ’تلخابۂ شیریں‘، ’چراغ سحر‘۔ ’’شاہنامہ اسلام‘‘ (چار جلدوں میں)۔’ شاہنامہ اسلام ‘ سے ان کی شہرت میں بہت اضافہ ہوا۔ انھوں نے افسانے بھی لکھے۔ بچوں کے لیے گیت اور نظمیں بھی لکھیں۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets