یہ کتاب اردو کے سب سے معتبر اور معروف شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کی حیات اور فکروفن پر ایک لافانی کتاب ہے۔ "یادگار غالب " سوانح عمری سے بڑھ کر یادگار عملی تنقیدی کارنامہ بھی ہے،اس میں غالب کی زندگی اور شخصیت کی کامیاب تصویر کشی کی گئی ہے،ان کی نثر نگاری اور شاعری کا جائزہ لیا گیا ہے،یادگار غالب دو حصوں پر مبنی ہے۔پہلے حصےمیں غالب کی زندگی کے واقعات ان کی تاریخ ولادت،اخلاق و عادات، مطالعہ کتب،سفر کلکتہ،مثنوی "باد مخالف"،غدر کےواقعات و "دستنبو"اور"قاطع برہان"وغیرہ کا بیان ملتا ہے۔اور دوسرے حصّے میں مرزا کی تحریروں کو نظم و نثر کے منتخب کلام کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ ہر قسم کے بیان میں تنقیدی زاویے کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ ساتھ ہی منتخب کلام کا نمونہ بھی درج کیا گیا ہے۔ انتخابات میں جو اشعار شرح طلب سمجھے گئے ہیں ان کی تشریح کر دی گئی ہے، جس سے غالب کے کلام کے محاسن کی طرف اشارہ ملتاہے۔
حالیؔ :۔1253ھ میں بہ مقام پانی پت پیدا ہوئے ۔ نوسال کے تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ اس لیے تعلیم و تربیت کا معقول انتظام نہ ہوسکا ۔ لیکن انہیں حصول تعلیم کا بہت شوق تھا اس لیے فارسی اور عربی مختلف لوگوں سے شروع کی تھی کہ ان کے عزیزوں نے مجبور کرکے ان کی شادی کردی لیکن علم کے شوق نے انہیں زیادہ مجبور کیا ۔۔۔۔۔۔اور روپوش ہوکر دہلی چلے آئے یہاں مولوی نوازش علی سے صرف و نحو اور منطق پڑھی غالب سے فارسی پڑھی اور ایک دو فارسی کی غزلیں بھی کہہ کر غالبؔ کو دکھائیں عربی کی تعلیم کی تکمیل نہیں ہونے پائی تھی کہ پانی پت بلالیے گئے اس اثنا میں عذر ہوگیا اور چھ سات برس پانی پت ہی میں رہے اور مختلف لوگوں سے منطق و فلسفہ حدیث و تفسیر وقتاً فوقتاً پڑھتے رہے ۔ اتفاقا نواب مصطفی خاں کی مصاحبت میسر آگئی اور یہ انہیں کے پاس جہاں گیر آباد آگئے ۔ اب شعر و سخن کا شوق پھر ابھرا نواب کی طرح یہ بھی غزلیں جانگیر آباد سے دہلی غالبؔ کے پاس بھیجنے تھے ۔ شیفتہؔ کی صحبت نے ان کی مذاق اور غالبؔ کی شاگردی نے ان کے کماشاعری پر بہت اثر کیا ۔ شیفتہ کی وفات کے بعد یہ لاہور میں گورنمنٹ بک ڈپو میں ملازم ہوگئے ۔ جہاں انہیں نگریزی سے اردو میں ترجمہ کی ہوئی کتابتیں درست کرنا پڑتی تھیں اس لیے ان کی انگریزی خیالات اور انگیزی طرزادا سے مناسبت پیدا ہوگئی اور جب ہالرائڈ ڈائرکٹر تعلیمات کے ایما سے لاہور میں جدید شاعری کے مشاعرے کی بنیاد ڈالی گئی تو حالیؔ نے چار مثنویاں ۔ (1)برکھارت (2)نشاط امید (3)مناظرۂ رحم و اصاف (4)حب وطن پڑھیں جو ۔۔۔مقبول ہوئیں 1333ھ مطابق1914ء میں مولانا نے وفات پائی ۔ تصانیف:۔حیات سعدی ۔ مقدمۂ شعر و شاعری ،یادگار غالب ، حیات جاوید وغیرہ بہت مشہور ہیں ۔ جدید شاعری کے علم بردار ہونے اور اردو شاعری میں اصلیت جوش اور سادگی کی روح پیدا کردینے کے علاوہ دہلویت ان کے کلام میں کس خوبی ، کمال استادی سے رچی ہوئی ہے اس کا اندازہ ذیل کے انتخاب سے ہوگا۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets