Font by Mehr Nastaliq Web

اک رات ایسی بھی آئی تھی

الطاف مشہدی

اک رات ایسی بھی آئی تھی

الطاف مشہدی

جب چھپ کے ملے تھے یاد کرو

اس یاد سے دل آباد کرو

اک ناگ سارہ رہ ڈستا تھا

آنکھوں سے خون برستا تھا

آلام کی بدلی چھائی تھی

اک رات ایسی بھی آئی تھی

گو ملنے سے مسرور تھے ہم

رونے پہ مگر مجبور تھے ہم

ڈرتے تھے بچھڑ جائیں نہ کہیں

بستے ہیں اجڑ جائیں نہ کہیں

اس غم نے آگ لگائی تھی

اک رات ایسی بھی آئی تھی

وہ غم کی کہانی یاد کرو

اشکوں کی زبانی یاد کرو

منہ پھیر کے تم رو لیتے تھے

اور مجھ کو تسلی دیتے تھے

جب چوٹ جگر پر کھائی تھی

اک رات ایسی بھی آئی تھی

کیا تم وہ زمانہ بھول گئے

آہوں کا ترانہ بھول گئے

اشکوں کا بہانا بھول گئے

سچ مچ وہ فسانہ بھول گئے

جس کا انجام جدائی تھی

اک رات ایسی بھی آئی تھی

اس باغ میں اب بھی جاتی ہوں

پہروں تک اشک بہاتی ہوں

جس باغ میں چھپ کے ملے تھے ہم

مرجھائے اور کھلے تھے ہم

جب درد کی دولت پائی تھی

اک رات ایسی بھی آئی تھی

مأخذ :

Additional information available

Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

OKAY

About this sher

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

Close

rare Unpublished content

This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

OKAY
بولیے