اک رات ایسی بھی آئی تھی
جب چھپ کے ملے تھے یاد کرو
اس یاد سے دل آباد کرو
اک ناگ سارہ رہ ڈستا تھا
آنکھوں سے خون برستا تھا
آلام کی بدلی چھائی تھی
اک رات ایسی بھی آئی تھی
گو ملنے سے مسرور تھے ہم
رونے پہ مگر مجبور تھے ہم
ڈرتے تھے بچھڑ جائیں نہ کہیں
بستے ہیں اجڑ جائیں نہ کہیں
اس غم نے آگ لگائی تھی
اک رات ایسی بھی آئی تھی
وہ غم کی کہانی یاد کرو
اشکوں کی زبانی یاد کرو
منہ پھیر کے تم رو لیتے تھے
اور مجھ کو تسلی دیتے تھے
جب چوٹ جگر پر کھائی تھی
اک رات ایسی بھی آئی تھی
کیا تم وہ زمانہ بھول گئے
آہوں کا ترانہ بھول گئے
اشکوں کا بہانا بھول گئے
سچ مچ وہ فسانہ بھول گئے
جس کا انجام جدائی تھی
اک رات ایسی بھی آئی تھی
اس باغ میں اب بھی جاتی ہوں
پہروں تک اشک بہاتی ہوں
جس باغ میں چھپ کے ملے تھے ہم
مرجھائے اور کھلے تھے ہم
جب درد کی دولت پائی تھی
اک رات ایسی بھی آئی تھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.