اپنے کو تیرے دھیان میں جس نے مٹا دیا
بھٹکے ہوؤں کو پاس کا رستا بتا دیا
ٹھہرا نہ جی، مجھی کو ٹھکانے لگا دیا
اے دینے والے تو نے دیا بھی تو کیا دیا
الٹی کہی سمجھ کے جو کہنے کی بات تھی
ہونٹ اس کے یوں ہلے کہ کلیجا ہلا دیا
کیونکر پڑھوں کہ کیا ہے لکیروں میں ہاتھ کی
جو لکھا آنسوؤں نے ٹپک کر مٹا دیا
جھپکی تھی جس سے آنکھ وہ بجلی بھی اب نہیں
ترسانا ہی تھا تم کو تو کیوں آسرا دیا
آنکھوں سے آنکھیں ملتے ہی دیوانے ہوگئے
پھر بھر کے ان کٹوریوں میں تم نے کیا دیا
میں سوچ ہی میں تھا کہ لگی ہے کہاں پہ چوٹ
اک ہوک یوں اٹھی کہ ٹھکانا بتا دیا
دو سوتیں چل رہی ہیں اب آنکھیں نہیں رہیں
ڈھیلوں کو پانی کر کے لگی نے بہا دیا
چونک آرزوؔ کہ سانس دھواں دے رہی ہے اب
چھالا نہ جان ابھرتے ہی جس کو دبا دیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.