اُدھر شیخِ حرم حور و جناں کو یاد کرتے ہیں
اُدھر شیخِ حرم حور و جناں کو یاد کرتے ہیں
اِدھر ہم جلوۂ حسنِ بتاں کو یاد کرتے ہیں
نہ پوچھو دل پہ کیا گزری نکل آئے ہیں آنسو بھی
کہ ہم اِس وقت نامِ رفتگاں کو یادکرتے ہیں
کچھ اس عالم سے اہلِ قافلہ پہنچے ہیں منزل تک
ابھی تک لوگ میرِ کارواں کو یاد کرتے ہیں
نہ جانے کون سی منزل پہ پہنچی میکشی اپنی
کہ بے خود ہو کے بھی پیرِ مغاں کو یاد کرتے ہیں
بہار آئی ہے پھر بھی دل شکستہ ہیں چمن والے
یہ شاید آج بھی دورِ خزاں کو یاد کرتے ہیں
ہمیں پر کچھ نہیں موقوف اس در کی جبیں سائی
حرم والے بھی ان کے آستاں کو یاد کرتے ہیں
عمل صالح نہیں جب حوصلہ ہمت نہیں کچھ بھی
عبث اسلام کے عزمِ جواں کو یاد کرتے ہیں
سمجھ میں کچھ نہیں آتا مذاق بندگی ان کا
کبھی جب ہم نمازِ عاشقاں کو یاد کرتے ہیں
ہماری بے خودیٔ عشق کا اب تو یہ عالم ہے
سرِ منزل بھی منزل کے نشاں کو یاد کرتے ہیں
وہی ہیں جانشینِ مرتضیٰ لختِ دل زہرا
حرم والے بھی جن کے آستاں کو یاد کرتے ہیں
نکل آتی ہے صورت کچھ نہ کچھ تسکین کی اخترؔ
جو ہم گھبرا کے ان کے آستاں کو یاد کرتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.