ادا سے دیکھتے ہیں مسکرا کر
ادا سے دیکھتے ہیں مسکرا کر
لگاتے ہیں وہ تیر آنکھیں ملا کر
گرا غش کھا کے کوئی بے تحاشا
کوئی جھٹ چھپ گیا جلوہ دکھا کر
بہت پچھتائے او بیدرد تجھ کو
ہم اپنے غم کا افسانہ سنا کر
لیے جاتا ہے تو وحشت کی اے دل
مجھے چھوڑے گا دیوانہ بنا کر
نہیں سامانِ دلچسپی وہاں کچھ
کرے گا کیا کوئی جنت میں جا کر
پڑا رہنے بھی دے اے درد فرقت
بٹھا دیتا ہے کیوں مجھ کو اٹھا کر
شبِ وعدہ تم آئے غیر کے ساتھ
یہ لائے خوب پنچھالہ لگا کر
سنوں تو میں بھی آخر کیا ہے مطلب
مرے پہلو میں کیوں بیٹھے ہو آکر
ذرا لے پڑھ کے اے دستِ تمنا
وہ جاتا ہے کوئی دامن چھڑا کر
نہ چھیڑیں آپ انہیں اے حضرت دل
ابھی بیٹھے ہیں وہ فتنے اٹھا کر
لیا پہلو سے دل خلوت میں مل کے
ہمیں لوٹا اکیلا تم نے پا کر
ترے دل کی کدورت مجھ کو ظالم
رہے گی خاک میں اک دن ملا کر
ہوائے شوق یہ کہتی ہے مجھ سے
وہاں کمبخت اڑ جا پر لگا کر
رہے گا تیر تیرا جان کے ساتھ
کہ رکھتا ہوں کلیجے سے لگا کر
کسی کی بے وفائی سے غرض کیا
ہر اک حالت میں اخترؔ تو وفا کر
- کتاب : انوار اختر (Pg. 61)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.