پوچھے بغیر خود ہی کہیں گے خدا سے ہم
پوچھے بغیر خود ہی کہیں گے خدا سے ہم
شرمندہ ہیں گناہ سے نادم خطا سے ہم
دل کو چھپا کے لائے کسی کی ادا سے ہم
کیا بال بال بچ گیے تیر قضا سے ہم
اٹکے نسیم سے کبھی الجھے صبا سے ہم
آزاد رہ سکے نہ جہاں کی ہوا سے ہم
سرمست ہو کے جامِ مئے جاں فزا سے ہم
آنکھیں چرا رہے ہیں ہر اک پارسا سے ہم
نا آشنائے محض زمانے سے ہو گیے
ہیں صرف آشنا دلِ درد آشنا سے ہم
وحشت میں کچھ نہیں تو یہی مشغلہ سہی
دامن کو تار تار کریں جابجا سے ہم
اترے اگر فلک سے زمیں پر مہ تمام
دیکھیں ملا کے اس کو ترے نقش پا سے ہم
آغازِ عشق سے رہی انجام پر نظر
رکھتے ہیں انتہا کی خبر ابتدا سے ہم
ہر چند کچھ امیدِ وفا جان سے نہیں
پھر بھی تو دل لگاتے ہیں اس بے وفا سے ہم
وقتِ نزولِ رحمتِ باری وہی تو ہے
جب کانپ کانپ اٹھتے ہیں خوف خدا سے ہم
ہے پاؤں کو ازل سے رستہ لگا ہوا
بھٹکے نہ آج تک کبھی راہ فنا سے ہم
نکلا ہے جو زبان سے ہوتا رہا وہی
آخر کو تنگ آئے قبول دعا سے ہم
کیجے نہ مدعا پہ نظر دیکھیے ذرا
کہتے ہیں ہات جوڑ کے کس التجا سے ہم
دنیائے حسن و عشق میں مشہور ہو گیے
طرز جفا سے آپ تو رسم وفا سے ہم
پائے تلاش سے جو لیا ہے جہاں نے کام
اکثر نکالتے ہیں وہ دست دعا سے ہم
کچھ ہم سے مٹنے والوں کا باقی نشاں بھی ہے
جھک جھک کے پوچھتے ہیں ہر اک نقش پا سے ہم
اخترؔ نہ ہم سے مہرِ درخشاں ملائے آنکھ
ذرہ ہیں ذرہ ہائے رہِ کربلا سے ہم
- کتاب : انوار اختر (Pg. 80)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.