میں کثرتِ گناہ سے اب شرمسار ہوں
میں کثرتِ گناہ سے اب شرمسار ہوں
اللہ! تیرے لطف کا امیدوار ہوں
گو ناتواں ہوں صدمۂ فرقت سے زار ہوں
چشمِ عدو میں پھر بھی کھٹکنے کو خار ہوں
کیا بیخودی ہے اس کا ہی میں خواست گار ہوں
بے ہوش ہوں ہزار مگر ہوشیار ہوں
ساقی وہ رندِ بادہ کش و بادہ خوار ہوں
ہر وقت تیری بزم میں یاروں کا یار ہوں
آنکھیں مدام رہتی ہیں در پر لگی ہوئی
کیا انتظار ہے ہمہ تن انتظار ہوں
دزدِ نگاہِ یار کے ہاتھ آئے گا نہ کچھ
دل سے جگر سے دونوں سے میں ہوشیار ہوں
پیتا رہا ادھار جو فصلِ بہار میں
ہر ایک مے فروش کا میں قرض دار ہوں
دم بھر بھی دل کو رکھ نہیں سکتا سنبھال کر
کیا میرا اختیار کہ بے اختیار ہوں
پُرسانِ حال کوئی نہیں اف رے بیکسی
خود اپنا چارہ ساز ہوں خود غم گسار ہوں
وہ شوخ گر نہیں مرے پہلو میں یہ تو ہے
فرقت میں دردِ دل ہی سے میں ہم کنار ہوں
جو کچھ کیا وہ مصلحتِ وقت دیکھ کر
توبہ شکن کبھی کبھی پرہیزگار ہوں
اس بیخودی شوق میں عالم ہی اور ہے
بے ہوش ہوں میں اور نہ کچھ ہوشیار ہوں
دل میں ہوا ہے خونِ تمنا و آرزو
غمگیں ہوں ان شہیدوں کا میں سوگوار ہوں
بھولے سے ہو کبھی تو ادھر بھی نگاہِ لطف
تیری ادائے خاص کا امیدوار ہوں
دونوں طرف لگائی محبت نے آگ کیا
بے صبر وہ وہاں میں یہاں بے قرار ہوں
وہ دیکھتے ہیں چشمِ حقارت سے کیوں مجھے
اخترؔ کوئی ذلیل ہوں میں بے وقار ہوں
- کتاب : انوار اختر (Pg. 83)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.