تری محفل میں جب آیا گیا ہوں
تری محفل میں جب آیا گیا ہوں
ہر اک پہلو سے تڑپایا گیا ہوں
گیا ہوں صورت سایا گیا ہوں
جہاں تم ہو وہیں پایا گیا ہوں
کہاں دنیا کہاں گلزار جنت
کہاں تھا میں کہاں لایا گیا ہوں
تجھے دیکھا تو محشر بول اٹھا
تری ٹھوکر سے ٹھکرایا گیا ہوں
نظر آیا نہ کچھ مجھ کو سرِ طور
ہزاروں بار گو آیا گیا ہوں
کرم کے ساتھ اندازِ ستم ہے
ترس آتے ہی ترسایا گیا ہوں
دل آزاری ہے شانِ دلدہی میں
تسلی میں بھی تڑپایا گیا ہوں
معمہ ہے ترا راز محبت
نہ سمجھا ہوں نہ سمجھایا گیا ہوں
کیا بے ہوش پھر جلوے نے تیرے
ذرا جب ہوش میں پایا گیا ہوں
وہاں کس منہ سے خالی ہاتھ جاتا
کہ دل کا لے کے سرمایا گیا ہوں
کچھ ایسا اپنی فطرت سے ہوں مجبور
بہک جاتا ہوں بہکایا گیا ہوں
ندا پیہم یہ کس کی آ رہی ہے
جہاں ڈھونڈھا وہیں پایا گیا ہوں
ترے کوچے سے کیا جنت سے نکلا
نکلتا ہوں نکلوایا گیا ہوں
وہ محفل اور تابِ آمد و رفت
کلیجہ تھام کے آیا گیا ہوں
زمیں کا رہنے والا ہوں میں اخترؔ
فراز چرخ پر پایا گیا ہوں
- کتاب : انوار اختر (Pg. 97)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.