اک پل وہ نگاہیں بھی چرائیں تو عجب کیا
اک پل وہ نگاہیں بھی چرائیں تو عجب کیا
چپ چاپ مجھے دل میں بسائیں تو عجب کیا
اک مشک بھری سانس ہو خُم گیسو کی مانند
گرداب میں خوشبو کی بہائیں تو عجب کیا
جب خم سے نکلتی ہے ہنسی ساز کی صورت
وہ قہقہۂ جاں کو سنائیں تو عجب کیا
پلکوں پہ ہو شبنم، ہو تبسم میں شرارت
سرمست نگاہوں سے پلائیں تو عجب کیا
لب جیسے گلابوں پہ ہو بارش کی صدا سی
اس لب کی حرارت میں جلائیں تو عجب کیا
اک خال ہو نافِ زرِ خم پر جو مہک سا
وہ رازِ بدن خود ہی بتائیں، تو عجب کیا
جب نقشِ بدن شوق میں آ جائے نمایاں
سایہ سا بھی پردے سے ہٹائیں تو عجب کیا
عطرانِ رخِ یار سے جب صبح مہک جائے
سبزہ بھی رخ انور کو پائیں تو عجب کیا
کانوں میں وہ بالی ہو، وہ صدفوں کی چمک ہو
گفتار سے آواز بہائیں تو عجب کیا
مژگاں کی نوکوں سے ہو توقیر کی بارش
اک پل میں نگاہیں بھی جھکائیں تو عجب کیا
انگڑائی میں ہو خم، ہو تماشا شبِ مہرف
رخسار پہ زلفیں بھی گرائیں تو عجب کیا
چاہیں تو اشاروں سے بدل دیں مرے موسم
اک پل میں وہ صحراؤں کو چھائیں تو عجب کیا
نوشاؔ یہ تری عرضِ تمنا ہی بہت ہے
پھر حسن بھی پردے کو ہٹائیں تو عجب کیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.