رخ سے نقاب اٹھا کے وہ جلوہ دکھا کے چل دیے
رخ سے نقاب اٹھا کے وہ جلوہ دکھا کے چل دیے
ہائے میری امید کی دنیا مٹا کے چل دیے
کس کس ادا و ناز سے بزم میں آ کے چل دیے
ہر اک قدم پہ دیکھیے محشر دکھا کے چل دیے
بیٹھا تھا ان کی راہ میں شاید نگاہِ لطف ہو
ایسا میں بدنصیب ہوں دامن بچا کے چل دیے
آئے تھے ان کی بزم میں لے کے ہزار حسرتیں
دیکھا جو ان کی شان کو سب کچھ لٹا کے چل دیے
ان کے کرم کی شان یہ دیکھا جسے اسے وہیں
ایک نگاہِ ناز سے اپنا بنا کے چل دیے
دیکھا ہے زاہدوں کو آج پیرِ مضاں کے پاؤں پر
کعبہ سمجھ کے دم بدم سر کو جھکا کے چل دیے
مجھ کو انہیں کی ہے تلاش خواب میں ہی ملیں وہ کاش
جو کہ امیرِؔ صابری بندہ بنا کے چل دیے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.