کیا کیا یہ نظارے میں اِدھر دیکھ رہا ہوں
کیا کیا یہ نظارے میں ادھر دیکھ رہا ہوں
ہر گام پہ موسیٰ کی نظر دیکھ رہا ہوں
کعبہ ہے کلیسا ہے جدھر دیکھ رہا ہوں
اک تیرے سوا کس کو مگر دیکھ رہا ہوں
ہر قطرے میں آنسو کے گہر دیکھ رہا ہوں
گوہر میں بھی ہیرے کا جگر دیکھ رہا ہوں
صیاد قفس سے ہی دکھاتا ہے گلستاں
کیا دیکھوں یہاں خونِ جگر دیکھ رہا ہوں
یہ قلقلِ مینا نہیں فردوس سماعت
عیسیٰ کے ادھر خم کا اثر دیکھ رہا ہوں
ہر کارہ یہاں میری طرف آجو رہا ہے
واللہ دعاؤں کا اثر دیکھ رہا ہوں
ساقی کے قدم پر مرا سرجھک گیا انورؔ
ہر قطرے میں اب خم کا اثر دیکھ رہا ہوں
قسمت سے یہاں تیغ بکف آیا ہے قاتل
مقتل جو بنا اپنا ہی گھر دیکھ رہا ہوں
خاکے میں ہمہ رنگ مصور نے بھرے ہیں
میں اپنی نظر اس کو مگر دیکھ رہا ہوں
بجلی سی تبسم جو گرایا ہے نگہ نے
لپکے ہی نہیں شعلے شرر دیکھ رہا ہوں
نظارۂ گلشن یہ؟ عنادل کا یہ نغمہ
پھولوں پہ یہ کیا خونِ جگر دیکھ رہا ہوں
مرنے کی تمنا ہے نہ جینے کی ہوس ہے
ایفائے وفا کب سے مگر دیکھ رہا ہوں
زاہد کی نظر جنت و فردوس پہ ہوگی
ہر قطرے میں ساقی کو مگر دیکھ رہا ہوں
میں جام بکف ہوں تو کبھی جام بلب ہوں
یہ ان کا کرم شام و سحر دیکھ رہا ہوں
- کتاب : بادۂ کہن (Pg. 99)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.