قتلِ عام اب ترے کوچہ میں ہوا کرتا ہے
قتلِ عام اب ترے کوچہ میں ہوا کرتا ہے
چال تو اب تو قیامت کی چلا کرتا ہے
میں وفا کرتا ہوں، گر یار جفا کرتا ہے
جس کا جو کام ہے، وہ اپنا کیا کرتا ہے
ہم کو معلوم ہے جاتا ہے کہاں چھپ چھپ کر
پر تو کیوں ہم سے پری زاد ڈرا کرتا ہے
بے خودی کیوں کہے نر پردہ کہ یک پردہ نشیں
خانۂ دل میں مرے اب تو بسا کرتا ہے
میرے مانند نہیں کوئے جہاں میں غمگیں
دہنِ زخم بھی میرا نہ ہنسا کرتا ہے
فتنہ و شر سے جو اس شوخ کو ہے ربطِ تمام
اس لیے عطر بھی فتنہ کا ملا کرتا ہے
جوشِ وحشت میں جو میں جاتا ہوں صحرا کی طرف
ہر بکلا پئے تعظیم اٹھا کرتا ہے
کہیں نہیں میں دیدۂ دل سے مرے پردگی جگہ
جا کبھی اس غرفۂ منظر میں آ کر کیجیے
کون ہے ایسا جو تیرے جان نثاروں میں نہیں
بات جو تجھ میں ہے اے گل! وہ ہزاروں میں نہیں
- کتاب : تذکرہ آثار الشعرائے ہنود (Pg. 15)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.