مسی بالیدہ لب ترا ہنسی ہے برگِ سوسن پر
مسی بالیدہ لب ترا ہنسی ہے برگِ سوسن پر
نگاہ شوخ، چشمک زن ہے برقِ شعلہ افگن پر
شفق پھولی ہے، یا رب! کس غضب کے اس کی
کہ جس سے چھا گیا رنگِ خزاں ہر ایک گلشن پر
جو بہرِ فاتحہ ان کے نہ آنے کی خبر پہنچے
تو پھر کیا کیا اداسی چھائے اپنی شمعِ مدفن پر
نہیں ہے نام کو بھی خون سا سب اشک ہو ہو کر
کری گر قتل تو مجھ کو، تو کیا ہو تیری گردن پر
جلایا سرمگیں آنکھوں نے مثلِ سرمہ ہم کو بھی
ہمیں گر خون کا دعویٰ ہے تو ہے موسیٰ کے گرد پر
پری اور چور میں بھی یہ نزاکت تو نہیں دیکھے
اگر آن ہے سایۂ محمل اس پر یکے نازنین تن پر
کیا ہر گل کو جا کر گلستان میں شرمسار اس نے
یہ ہے غرقِ خجالت، کب پڑی ہے اس گلشن پر
ہمیں روزِ جزا بھی پاس ہے انصاف سے اپنے
کہ لاکھوں ہی میں خونِ بے گناہ قاتل کے گرد پر
پس مردن ہوائے عشق سے یہ سرد دل میرا
نہیں آتا کوئی پرواز میری شمعِ مدفن پر
نہاں کیوں دانہ بائے سبحہ میں زنار رکھتی میں
مگر در پردہ غش میں شیخ جی طفل برہمن پر
- کتاب : تذکرہ آثار الشعرائے ہنود (Pg. 16)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.