Font by Mehr Nastaliq Web

جس نے دیکھا ہے زخم بسم کا

دیبی پرشاد بشاش

جس نے دیکھا ہے زخم بسم کا

دیبی پرشاد بشاش

MORE BYدیبی پرشاد بشاش

    جس نے دیکھا ہے زخم بسم کا

    ہاتھ وہ چومتا ہے قاتل کا

    خط کہاں ہے یہ دفتر تفسیر

    آیت ابرو ان قاتل کا

    خاکساری ہے بسکہ اپنا شعار

    عطر بھی گر میں تو ہو گل کا

    ہے جو روشن سواد منزل کا

    پردہ اٹھا ہے اس کے محمل کا

    کیا جلایا ہے مجھ کو ہجر کی شب

    شمع تھی یا کہ داغ تھا دل کا

    سامنے اس پری کے آئے جو حور

    پردہ گھل جائے حق و باطل کا

    شمع روتی تھی لوٹتے ہے ہم

    تیرے بن تھا یہ حال محفل کا

    مأخذ :
    • کتاب : تذکرہ آثار الشعرائے ہنود (Pg. 18)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے