Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

غضب سکہ جما ہے حسن عالمگیر جاناں کا

فانیؔ گورکھپوری

غضب سکہ جما ہے حسن عالمگیر جاناں کا

فانیؔ گورکھپوری

MORE BYفانیؔ گورکھپوری

    غضب سکہ جما ہے حسن عالمگیر جاناں کا

    یدِ قدرت نے دروازہ کیا ہے بند امکاں کا

    نہ سمجھے کوئی خطِ وصل خط رخسار جاناں کا

    دکھاتا ہے یہ باغ سبز سبزہ اس گلستاں کا

    گلا کٹوائے گا غم ایک دن ابروئے جاناں کا

    بنے گا حلق پر خنجر ہلال اپنے گریباں کا

    بہار بے خزاں ہے جلوہ حسن روئے جاناں کا

    ملا ہے روضۂ رضواں سے ڈانڈا اس گلستاں کا

    ہوا اس طرح عرس اے گل ترے وحشی عریاں کا

    تبرک کی طرح ٹکڑا بٹا جیب و گریباں کا

    بہت اب پائوں پھیلاتا ہے سودا اُس گریباں کا

    گریباں سے گلے ملنے چلا ہے چاک داماں کا

    جنونِ عشق میں سودا کسے سیر گلستاں کا

    لگا رہتا ہے اپنے پائوں سے دامن بیاباں کا

    ہوا صد چاک دل وارفتہ ہوکر روئے جاناں کا

    الٰہی منتشر ہونے لگا شیرازہ قرآں کا

    بہار آتے ہی جلوہ رنگ لایا روئے جاناں کا

    کُھلا ہے بابِ پنجم صحنِ گلشن میں گلستاں کا

    کلی خاموش، گل نے پردۂ خجلت میں منھ ڈھانکا

    کسی کو دیکھ کر نقشہ دگرگوں ہے گلستاں کا

    یہاں تک نفی ہستی کی ہے عاشق نے کہ سینے پر

    دوشاخ ’’لا‘‘ بنا ہے چاک دامان و گریباں کا

    دل شیدا بنا ہے درس گاہِ خود فراموشی

    کتابِ عشق میں درس ان دنوں ہے بابِ نسیاں کا

    خدا رکھے تمھارے خنجر پُر آب کے دم کو

    دعا دیتے ہیں عاشق پی کے پانی آبِ حیواں کا

    خیال زلف میں مری سحر بھی شام ہی سی ہے

    مرے روز سیہ میں رنگ ہے شبہائے ہجراں کا

    شب غم بخت کی برگشتگی بھی لطف دیتی ہے

    مری آنکھوں میں نقشہ ہے تری زلفِ پریشاں کا

    حیاتِ جاوداں پاتے ہیں آبِ تیغ سے عاشق

    تیری تلوار سے ہے نام زندہ آبِ حیواں کا

    شبِ فرقت عجب رونق ہے میری آہِ سوزاںسے

    ذرا آکر تماشا دیکھیے سرو چراغاں کا

    نہیں کم ہوتی صبح وصل بھی دل کی پریشانی

    کہ زلفیں پیش کردیتی ہیں نقشہ شام ہجراں کا

    بتوں کا ہاتھ کعبہ کی طرف بھی بڑھ چلا دیکھو

    خدا حافظ ہے اب شیخ حرم کے دین و ایماں کا

    یہی حسرت ہے کوئی پوچھتا، ہم ماجرا کہتے

    عنایتہائے دشمن کا نوازشہائے درباں کا

    لگاتار ایسے بڑھ کر ہاتھ مارے دستِ وحشت نے

    کہ اب تو نام بھی باقی نہیں تارِ گریباں کا

    ہمیشہ عاشقِ نالاں کے چکر ہی میں پھرتاہے

    مگر سر پھر گیا ہے پیر ہو کر چرخِ گرداں کا

    اسی منھ پر چلا تھا ہمسری کو روئے روشن سے

    ہوائی اڑ رہی ہے منھ تو دیکھو ماہِ تاباں کا

    ہمیں صحرائے وحشت میں بھی حاصل سرفرازی ہے

    قدم لیتا ہے بڑھ کر چاک دامان و گریباں کا

    جدائی جیتے جی ممکن نہیں تھی دستِ وحشت سے

    کیا ہے قطعِ رشتہ موت نے تار گریباں کا

    فنا ہو کر حیاتِ جاوداں پائی ہے فانی ؔنے

    مگر پانی تری تلوار میں ہے آبِ حیواں کا

    مأخذ :
    • کتاب : دیوان فانی
    • اشاعت : Second

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے