یار کی منزل حقیقت میں سوائے دل نہیں
یار کی منزل حقیقت میں سوائے دل نہیں
میں کسی کا جز دلِ بے مدعا سائل نہیں
بے دہن ہو کر بھی مجھ سے گفتگو کرتے ہو تم
اب بھی کیا معجز بیانی کا کوئی قائل نہیں
عمر بھر کے بارِ احساں سے تو مرنا خوب ہے
زندگی کے واسطے منت کش ساحل نہیں
عشق دو کو ایک کرتا ہے یہ ہے اس کا کمال
عاشق کامل نہ سمجھو اس کو جو واصل نہیں
عقل اول بھی ہے چاکر عشق کے دربار میں
جو نہ رکھے راہ الفت میں قدم عاقل نہیں
باوجود ہم کناری کیوں جدا ہیں یار سے
اپنی ہستی کے سوا بس اور کچھ حائل نہیں
اس رخِ روشن کے آگے ماہِ کامل ہے ہلال
طرّہ یہ ہے ماہِ حسنِ یار ابھی کامل نہیں
خوب کھل کھیلے عدو سے مجھ کو غافل جان کر
آپ سے غافل ہوں لیکن آپ سے غافل نہیں
چھین لے جاتی ہے دل دن دوپہر اندھیر ہے
زلف اس آہو چشم کی کیوں کر کہوں پر دل نہیں
میرے شعروں کی صفائی ہے مثالِ آئنہ
خود ثناگر کی ثنا ہے میں کسی قابل نہیں
ہاتھ میں دزدِ حنا تم ہاتھ کے سچے چہ خوش
اپنے منھ بنیے میاں مٹھّو تو میں قائل نہیں
طنزیہ جو ہو شترگربہ وہ ہے حسنِ کلام
فہم ناقص میں یہ فانیؔ ترک کے قابل نہیں
- کتاب : دیوان فانی
- اشاعت : Second
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.