مائل نگاہ یار ہوئی ہے شکار پر
مائل نگاہ یار ہوئی ہے شکار پر
کیا تولتا ہے مرغ دلِ بے قرار پر
گل خندہ زن ہیں باغ میں عشق ہزار پر
کیوں ہو غم و سرور خزاں و بہار پر
سننا پڑا یہ شکر غمِ روزگار پر
کیا عشق ہے کہ آنکھ پڑی غیر یار پر
وعدے کی رات آنکھ میں آکر رکا ہے دم
پہرا امید کا ہے در انتظار پر
بام خیال خام بنانے لگی امید
بنیاد سست وعدئہ بے اعتبار پر
دل زلف وخط میں ہے کہ لیا ناز و غمزہ نے
شبہ تو مجھ کو ہے انھیں دوتین چار پر
تنہا دل اس کے غمزے سے کیا پیش پاسکے
وہ بِنوٹی۴؎ تو بھاری ہے سو پر ہزار پر
تعریف ہورہی ہے نگاہ بلند کی
کیا منھ کی کھائی ہے گلۂ روزگار پر
جاتے ہیں سر سے صاحب دل راہِ شوق میں
اس کا گواہ ہے سر منصور دار پر
دیکھا کیے نگاہ لڑانا رقیب سے
شب بھر ہماری آنکھ رہی چشم یار پر
مٹی تو اپنے چاہنے والے کو دیجیے
اب سے بھی خاک ڈالیے دل کے غبار پر
طے کر رہا ہے شوق میں فانیؔ رہ فنا
آسن جما ہے ابلق لیل و نہار پر
- کتاب : دیوان فانی
- اشاعت : Second
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.