بشکل نقشِ قدم رفتۂ خرام ہوں میں
بشکل نقشِ قدم رفتۂ خرام ہوں میں
خدا جو چاہے تو اب فائزالمرام ہوں میں
سمندِ عمرِ رواں غافلوں سے کہتا ہے
نہ پائے گرد بھی کوئی وہ تیز گام ہوں میں
کسی کے غم میں ہمیشہ بجھا ہی رہتا ہوں
چراغ گور غریباں کا وقت شام ہوں میں
جنوں کا سلسلہ چمکا ہے میری وحشت سے
جنابِ عشق کا روشن ہے جس سے نام ہوں میں
یہ پائے مالوں سے کہتا ہے اس کانقش قدم
پڑا ہوا ہوں مگر محشرِ خرام ہوں میں
خدا پناہ میں رکھے تمھارے اَبرو سے
یہ کہہ رہا ہے ہر اک تیغِ بے نیام ہوں میں
یہ بے خودوں سے تری چشم مست کہتی ہے
کہو شراب اگر عشق کو تو جام ہوں میں
وہ رشک مہر لب بام سے یہ کہتا ہے
نہ ہو غروب وہ خورشید طرفِ بام ہوں میں
یہ کہہ رہی ہیں وہ آنکھیں جم و سکندر سے
جو روئے یار کا آئینہ ہو وہ جام ہوں میں
مزا ہوا جو پکارا کسی نے دشمن کو
نکل کے میں نے کہا آپ کا غلام ہوں میں
- کتاب : دیوان فانی
- اشاعت : Second
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.