کبھی نہ ہادیِ کامل سمجھئے جاہل کو
کبھی نہ ہادیِ کامل سمجھئے جاہل کو
محال ہے کوئی غافل جگائے غافل کو
ہزار کھنچتی رہی دیکھ کر وہ مائل کو
گلے لگا ہی لیا بڑھ کے تیغِ قاتل کو
دھرا ہے کعبہ میں کیا ڈھونڈ مستوں کے دل کو
بس اک اشارہ یہ کافی ہے مرد عاقل کو
یم گناہ کے گرداب میں ہے کشتیِ دل
خدا ہی ہے جو سلامت یہ پہنچے ساحل کو
کیا ہے قیدِ غم ہجر سے مجھے آزاد
جزائے خیر دے اللہ میرے قاتل کو
اگر نظر ہو تو حق کے سوا وجود محال
غلط ہے سمجھے ہیں باطل جو لوگ باطل کو
نثار کیوں نہ ہو سو جان سے وہ اے قاتل
گلے لگاتی ہے تلوار تیری بسمل کو
وسیع عرش سے ہو کر مقام دل بر ہو
اگر نہ غیر کا حجرہ بنایئے دل کو
فراق یار میں بھی سُرخرو ہمیشہ رہے
دعائیں دیتے ہیں ہم تھوک کر لہو سل کو
جو خاکِ پائے سگِ یارہو تو آنکھوں میں
لگائیں سرمہ بناکر ملک تری گلِ کو
تری ہی ذات ہے جو اصل کائنات ہوئی
کہاں سے پھر کوئی لائے ترے مماثل کو
نہ جب تک آپ کو مارے محال ہے ملنا
وصال وصل سے پہلے ہے تیرے واصل کو
نکل کے حضرتِ آدم کی طرح اے گل رو
’’بہشت کہتے ہیں عشاق تیری محفل کو‘‘
اگر ہے ہوش تو پیر مغاں کی بیعت کر
کبھی نہ پاس پھٹکنے دے شیخ عاقل کو
کبھی نہ پھولتے اس طرح گل کی الفت میں
جو ہوتی معرفت عشق کچھ عنادل کو
خود آکے دیکھ لیں ہے کون اس میں ان کے سوا
غلط وہ سمجھے عدو کا دل آنکھ کے تل کو
فروغ کیوں نہ ہو عالم کو نور سے اس کے
کہ دست یار سے نسبت ہے ماہِ کامل کو
ہوا وصال اسی کی بدولت اے فانیؔ
میں کیوں نہ پیار کروں دل سے تیغ قاتل کو
- کتاب : دیوان فانی
- اشاعت : Second
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.