ہوش کی بات ہے یہ نالہ و فریاد کروں
ہوش کی بات ہے یہ نالہ و فریاد کروں
پہلے اپنے کو بھلا دوں تو تجھے یاد کروں
ظلم معشوق ہوں عاشق پہ کہاں ایسے نصیب
ہو تساہل بھی تو میں شکوہ بیداد کروں
دام گیسو میں پھڑک سوچ سمجھ کر اے دل
ان کے دل میں نہ یہ آ جائے کہ آزاد کروں
اس محبت نے عجب حال کیا ہے دل کا
کوئی پابندِ مصیبت ہو میں فریاد کروں
کس قدر سخت ہیں دستور اسیرانِ قفس
جرم ہے یہ بھی نظر جانبِ صیاد کروں
ہو اثر یا نہیں حسرت تو نکل جائے گی
خامشی سے یہی بہتر ہے کہ فریاد کروں
بعد مدت کے گئی بیخودی اب ہوش آیا
پھر وہ بھولے ہوئے انداز جنوں یاد کروں
مشتِ خاک اپنی ہے منسوب کسی کے در سے
نہیں زیبا کہ در غیر پہ برباد کروں
خود نہیں چاہتا حسرت کوئی نکلے دل سے
ظلم ہے یہ بھی بھرے گھر کو میں برباد کروں
فوقؔ درس حرم و دیر رہا بے معنیٰ
مکتبِ عشق میں اب جا کے سبق یاد کروں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.