اس چشم مست نے دیکھا اِدھر یا جام مئے گلفام دیا
اس چشم مست نے دیکھا ادھر یا جام مئے گلفام دیا
اے ہوش و حواس خدا حافظ اب مستی کا پیغام دیا
بے دیکھے تو لاکھوں مرتے ہیں دیکھیں گے تو عالم کیا ہوگا
کچھ سوچ سمجھ کر بھی تم نے دیدار کا اذنِ عام دیا
جو دل میں ٹھہرے وہ درد ملا جو دل سے نہ جائے وہ داغ ملا
کیا ہم کو توقع آپ سے تھی وہ آپ نے کیا انعام دیا
اول یہ محبت قاتل تھی اعجاز ہوئی یہ آخر میں
جس درد نے بے آرام رکھا اس درد ہی نے آرام دیا
صیاد کے جور معاذاللہ یہ قیدِ قفس توبہ توبہ
آزاد رہا وہ خوش قسمت دم جس نے زیرِ دام دیا
اس پرسشِ حال خستہ سے جان آ گئی جسمِ مردہ میں
وہ تم نے دوا جو بھیجی تھی اس نے تو نہ کچھ آرام دیا
اے فوقؔ محبت فطری ہے معشوق کی پوجا لازم ہے
کیا سوچ کے لوگوں نے ہم کو بے دینی کا الزام دیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.