کہاں تلک ذوقِ بندگی ہے ہزار بار آزما کے مانیں
کہاں تلک ذوقِ بندگی ہے ہزار بار آزما کے مانیں
تلاش میں اپنے آستاں کے وہ ہم کو در در پھرا کے مانیں
نقاب کیسی کہاں کا پردہ وہ اپنی صورت دکھا کے مانیں
کسی کو بیخود بنا کے چھوڑا کسی کو حیراں بنا کے مانیں
قرار و ہوش و خرد دل و جاں ادھر سوا اس کے کیا رکھا ہے
ادھر ادائیں نئی نئی ہیں مطالبے کس ادا کے مانیں
ہزار بگڑیں ہزار روٹھیں یہ اقتضا ان کے حسن کا ہے
ہمیں تو دعوائے عاشقی ہے ہمیں ہے لازم منا کے مانیں
یہ عشق کی کون سی ہے منزل اسی تحیر میں زندگی ہے
یہ رنج و غم ابتدا کے مانیں کہ صد میں یہ انتہا کے مانیں
یہ بات کچھ بھی نہیں وفا کی نہ قابل داد سمجھی جائے
ہمارے دعویٰ عاشقی کو ہزار بار آزما کے مانیں
ہزار بار آنکھ کھولی ہم نے ہزار بار آنکھ بند بھی کی
مگر بہر حال ہر بہانے وہ اپنی صورت دکھا کے مانیں
نہیں ہیں نقش و نگار دل میں کہ جن سے ہو کوئی خاص رونق
وہ آئے تھے میہمان بن کر مگر اسے گھر بنا کے مانیں
نہ دیکھی ساقی نے تاب و طاقت نہ دیکھی پیر مغاں نے صورت
نہ عمر بھر نشہ اترے جس کا یہ دونوں ایسی پلا کے مانیں
نہیں طبیعت ہے اپنی ایسی کہ فوقؔ احسان لیں کسی کا
دیا تھا جس نے متاعِ ہستی اسی پہ اس کو لٹا کے مانیں
- کتاب : آئینۂ تغزل (Pg. 77)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.