غیر تجھ کو بت بے پیر لیے بیٹھے ہیں
غیر تجھ کو بت بے پیر لیے بیٹھے ہیں
ہم کلیجہ میں ترا تیر لیے بیٹھے ہیں
بدلے تقدیر کے تدبیر لیے بیٹھے ہیں
تو نہیں تو تری تصویر لیے بیٹھے ہیں
کبھی سجدے کبھی بوسہ کبھی صدقہ قرباں
تم یہ سمجھے مری تصویر لیے بیٹھے ہیں
پیش کر دیں گے اسے نامۂ اعمال کے ساتھ
کہ ترے عفو کی تحریر لیے بیٹھے ہیں
سوچ کیا ہے ہمیں پہنانے میں کیا ہے تاخیر
آپ کیوں ہاتھ میں زنجیر لیے بیٹھے ہیں
غیر تدبیر سے پہنچا حرم دلبر تک
گھر میں ہم شکوۂ تقدیر لیے بیٹھے ہیں
یار نے بیٹھنے کی در پہ اجازت دے دی
بس یہی خوبیٔ تقدیر لیے بیٹھے ہیں
سر کا یہ حال ہے گردن پہ سنبھلتا ہی نہیں
وہ جو سو ناز سے شمشیر لیے بیٹھے ہیں
دیکھا اس کو جو سرِ راہ تو رستہ بھولے
وہ جو دل ہاتھ میں راہ گیر لیے بیٹھے ہیں
ان کی زلفوں کی اسیری نے کہیں کا نہ رکھا
بے صدا پاؤں میں زنجیر لیے بیٹھے ہیں
تن عریاں کو ہے خاکِ در جاناں کافی
فوقؔ زر کیا کریں اکسیر لیے بیٹھے ہیں
- کتاب : آئینۂ تغزل (Pg. 62)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.