Font by Mehr Nastaliq Web

غیر تجھ کو بت بے پیر لیے بیٹھے ہیں

فوق رامپوری

غیر تجھ کو بت بے پیر لیے بیٹھے ہیں

فوق رامپوری

MORE BYفوق رامپوری

    غیر تجھ کو بت بے پیر لیے بیٹھے ہیں

    ہم کلیجہ میں ترا تیر لیے بیٹھے ہیں

    بدلے تقدیر کے تدبیر لیے بیٹھے ہیں

    تو نہیں تو تری تصویر لیے بیٹھے ہیں

    کبھی سجدے کبھی بوسہ کبھی صدقہ قرباں

    تم یہ سمجھے مری تصویر لیے بیٹھے ہیں

    پیش کر دیں گے اسے نامۂ اعمال کے ساتھ

    کہ ترے عفو کی تحریر لیے بیٹھے ہیں

    سوچ کیا ہے ہمیں پہنانے میں کیا ہے تاخیر

    آپ کیوں ہاتھ میں زنجیر لیے بیٹھے ہیں

    غیر تدبیر سے پہنچا حرم دلبر تک

    گھر میں ہم شکوۂ تقدیر لیے بیٹھے ہیں

    یار نے بیٹھنے کی در پہ اجازت دے دی

    بس یہی خوبیٔ تقدیر لیے بیٹھے ہیں

    سر کا یہ حال ہے گردن پہ سنبھلتا ہی نہیں

    وہ جو سو ناز سے شمشیر لیے بیٹھے ہیں

    دیکھا اس کو جو سرِ راہ تو رستہ بھولے

    وہ جو دل ہاتھ میں راہ گیر لیے بیٹھے ہیں

    ان کی زلفوں کی اسیری نے کہیں کا نہ رکھا

    بے صدا پاؤں میں زنجیر لیے بیٹھے ہیں

    تن عریاں کو ہے خاکِ در جاناں کافی

    فوقؔ زر کیا کریں اکسیر لیے بیٹھے ہیں

    مأخذ :
    • کتاب : آئینۂ تغزل (Pg. 62)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے