جی میں ہے اب چشم و دل کو جام و مینا کیجیے
جی میں ہے اب چشم و دل کو جام و مینا کیجیے
پاس ہے جو اپنے اس کو وقف صہبا کیجیے
دوزخ و جنت نتیجہ خیر و شر کا ہے یہاں
بے غرض دونوں سے ہو کر عشق پیدا کیجیے
حوصلہ تنگی کرے ہے تابہ کے قیدِ نفس
پر فشانی آرزو ہے کیوں کہ پروا کیجیے
قدر کم ہوتی ہے اس کے پاس جو ہوتی ہے چیز
دل کو لے کر اب مرے باتیں بنایا کیجیے
نم نہیں آنکھوں میں باقی شرم سے ہے چہرہ سرخ
عشق کا کس منہ سے لے کر راز افشا کیجیے
گردشِ افلاک میری ہے یہاں چپ ہی بھلی
دوش کس کو دیجیے اب شکوہ کس کا کیجیے
بے ثباتی نے جہاں کی کر دیا یہ سینہ سرد
کچھ تمنا ہی نہ ہو اب یہ تمنا کیجیے
دل پہ جو گذرے ہے اپنے صبر ہے اس پر ہمیں
بندگی بیچارگی مرضی تری کیا کیجیے
بوالہوس جاتے رہے سب عشق فدویؔ ہو چکا
ان پہ نازاں تھے پری رہ چل کے مجرا کیجیے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.