وفا کی داستاں چھیڑی کبھی تم نے کبھی ہم نے
وفا کی داستاں چھیڑی کبھی تم نے کبھی ہم نے
بطرزِ دلبری تم نے برنگ عاشقی ہم نے
نگاہِ شوق سے بخشی جنہیں تابندگی ہم نے
تصور میں انہی جلووں سے مانگی روشنی ہم نے
وہی جلوے وہی آنکھیں مگر کیا ہوگیا دل کو
نہ جانے کیوں بدل ڈالا مذاقِ زندگی ہم نے
یہی ویران آنکھیں ہیں، یہی سنسان راہیں ہیں
یہیں اکثر جلائے ہیں چراغِ دلبری ہم نے
جدائی کا سماں ہے آج تک اپنی نگاہوں میں
نہ کوئی بات کی تم نے نہ کوئی بات کی ہم نے
یہی اک عالمِ وارفتگی تھا ان سے مل کر بھی
جدا رہ کر بھی ان سے اپنی حالت دیکھ لی ہم نے
بتا اے بے خودی تو ہی، زباں پر کس کا نام آیا
کہو اے سننے والو یہ، کسے آواز دی ہم نے
زمانہ ہوگیا لیکن یہی محسوس ہوتا ہے
تمہیں پہلے پہل جس طرح دیکھا ہوا بھی ہم نے
ملے جب بھی نئے جلوے نظر آئے نگاہوں کو
دیارِ حسن میں دیکھا نہ تم سا اجنبی ہم نے
وہ کچھ کہنے کو تھے ہم پا گئے وہ مسکرا اٹھے
کوئی تو بات تھی جو ان کے منہ سے چھین لی ہم نے
بس اک ذوقِ نظر پر ناز تھا وہ بھی نہیں باقی
حفیظؔ ان کے تغافل کو یہ دولت سونپ دی ہم نے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.