کیا کہوں عشقِ بتاں سے حال میرا کیا ہوا
کیا کہوں عشقِ بتاں سے حال میرا کیا ہوا
دیر میں آتے ہی سارے دہر میں رسوا ہوا
عشق کا ہم درس جب سے حسن بزم آرا ہوا
مکتبِ الفت میں جو شیدانہ تھا شیدا ہوا
جب سے اس کی زلفِ پیچاں کا مجھے سودا ہوا
جان بھی الجھی ہوئی ہے دل بھی ہے الجھا ہوا
کب ملی اہلِ محبت کو مصیبت سے نجات
درد دل جاتا رہا سوزِ جگر پیدا ہوا
لی شبِ فرقت تصور نے بھی کیا کیا نوک کی
میرے حق میں ان کا ہر موئے مژہ کانٹا ہوا
ناصحِ ناداں تجھے ہو کیا محبت کی خبر
تو نے دیکھا ہی نہ ہو جب کوئی دل آیا ہوا
موت ہی اے چارہ گر حکمی علاجِ عشق ہے
میں نہ اچھا ہو سکا تجھ سے بہت اچھا ہوا
دیکھ لو اس جزو میں کل کی حقیقت دیکھ لو
جو گرا آنسو مری آنکھوں سے وہ دریا ہوا
کیا اڑاتے خاک دنیا میں بقدرِ حوصلہ
پائے وحشت سے ہمارے تنگ ہر صحرا ہوا
جا کے بت خانے میں یہ قدرت خدا کی دیکھیے
سجدہ گاہِ خلق اک کافر کا نقشِ پا ہوا
بے وفا کیا کیا حسیں پہلے بھی گذرے ہیں مگر
تیرے عہد حسن میں نامِ وفا عنقا ہوا
چاند ہے داغی فلک پر زرد رو ہے آفتاب
جب سے دنیا میں ترا حسن انجمن آرا ہوا
عشق کی بنیاد میں ہے خاکساری کا خمیر
تمکنت کے ساتھ پیدا حسن بے پروا ہوا
تھا حجابِ پر تکلف بھی کوئی شاید رقیب
میرے شوقِ دید کا دشمن ترا پردا ہوا
میکدے میں بھی نہ چھوڑا گردشِ قسمت نے ساتھ
میں جب آیا ختم دورِ ساغر و مینا ہوا
اب نہ پہلا سا فلک ہے اب نہ پہلی سی زمیں
یہ دو ورقہ ایک نالے میں تہہ و بالا ہوا
آبرو والوں کو ہے عزلت نشینی میں عروج
ضبط جو آنسو کیا آنکھوں کا وہ تارا ہوا
دیکھ جا کر حامدؔ مجروح کا تو حالِ زار
وہ بھی ہے تیغِ تغافل کا تری مارا ہوا
- کتاب : دیوان حامد (Pg. 46)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.