ہم ان کے ایسے وعدے سے محجوب و پریشاں ہوتے ہیں
ہم ان کے ایسے وعدے سے محجوب و پریشاں ہوتے ہیں
اقرار تو ہم سے کرتے ہیں اغیار کے مہماں ہوتے ہیں
بے درد ستمگر بانیٔ شر فرخندہ خصائل نیک سیر
کچھ ایسے بھی انساں ہوتے ہیں کچھ ویسے بھی انساں ہوتے ہیں
مذہب کیسا مشرب کیسا اس عہد میں دیر و کعبہ کیا
دونوں سے جدا دونوں سے الگ سب گبر و مسلماں ہوتے ہیں
تنہائی کا موقع جو ملے تو غنچۂ خاطر اپنا کھلے
چلتے پھرتے آتے جاتے ساتھ ان کے نگہباں ہوتے ہیں
گلشن کا عجب عالم دیکھا پھولوں کا نظارا ہم نے کیا
وہ شام کو سب مرجھاتے ہیں جو صبح کو خنداں ہوتے ہیں
موقع کی ضرورت سب کے لیے ہر چند ہے اپنے ڈھب کے لیے
تارے کہیں گردوں پر دن کو بے وقت نمایاں ہوتے ہیں
ہم کچھ نہ کہیں گے پیش خدا اشکووں سے تعلق ہم کو کیا
وہ تذکرۂ محشر پہ جو عبث اس درجہ پریشاں ہوتے ہیں
عادت یہ نہیں چھٹنے والی پامالی ہو یا خوش حالی
جب دیکھتے ہیں ہم کوئی حسیں سو جان سے قرباں ہوتے ہیں
اللہ کی رحمت کا ہے یقیں محشر کا ذرا بھی خوف نہیں
کچھ سوچ کے ہم کچھ جان کے ہم آلودۂ عصیاں ہوتے ہیں
گھنگھور گھٹاؤں کا آنا پھولوں کا چمن میں کھل جانا
رندوں کے لیے مئے نوشی کے یوں غیب سے ساماں ہوتے ہیں
آرائش و زینت کا عالم ایسا نظر آیا حامدؔ کم
آئینہ کو حیراں کرتے ہیں پھر خود بھی وہ حیراں ہوتے ہیں
- کتاب : دیوان حامد (Pg. 138)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.