Font by Mehr Nastaliq Web

جو الفت میں مٹا رسوا ہوا سارے زمانے میں

حامد عظیم آبادی

جو الفت میں مٹا رسوا ہوا سارے زمانے میں

حامد عظیم آبادی

MORE BYحامد عظیم آبادی

    جو الفت میں مٹا رسوا ہوا سارے زمانے میں

    یہی حاصل تو ہوتا ہے کسی سے دل لگانے میں

    بجز آزار و غم کے نفع کیا ہے دل لگانے میں

    دھرا ہے اور کیا عشق و محبت کے فسانے میں

    یہی خواہش ہے ان کی خون ہو میری تمنا کا

    شبِ وعدہ نہ ہوں مشغول کیوں مہندی لگانے میں

    کسے ہم جان لیں سچا کسے ہم جان لیں جھوٹا

    کہ سو پہلو ہوا کرتے ہیں ان کے ہر بہانےمیں

    جو ان کو کھول دیں تو دل پھنسا لیں اہل الفت کا

    وہ اپنے گیسوؤں کو کیوں پھنسارکھتے ہیں شانے میں

    انہیں میں جانتا بھی ہوں انہیں پہچانتا بھی ہوں

    بڑے فرزانہ وکامل ہیں وہ باتیں بنانے میں

    ہزاروں طالبِ دیدار زندہ ہو گیے مر کر!

    سرِ حشر اب انہیں کیا دیر ہے تشریف لانے میں

    ابھی تو زندہ ہوتے ہیں ہزاروں سال کے مردے

    بگڑتا کیا ہے تیرا اے مسیحا لب ہلانے میں

    خیالِ زلف میں رہتا ہے یوں اپنا دلِ مضطر

    اسیر غم بسر کرتا ہو جیسے قید خانے میں

    ہم اپنی کہہ سناتے ہیں وہ اپنا کہہ سناتا ہے

    مزا ملنے لگا دونوں کو الفت کے فسانے میں

    نفس کی آمدو شد کوئی دم میں بند ہوتی ہے

    بہت تاخیر کر دی نامہ بر نے آنے جانے میں

    اگر بخشے زہے قسمت نہ بخشے تو شکایت کیا

    نہیں کچھ دخل اے حامدؔ خدا کے کارخانے میں

    مأخذ :
    • کتاب : دیوان حامد (Pg. 161)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے