کوئی اس دامِ محبت میں گرفتار نہ ہو
کوئی اس دامِ محبت میں گرفتار نہ ہو
اے خدا یہ تو کسی بندے کو آزار نہ ہو
کیجے اقرار کچھ ایسا کہ پھر انکار نہ ہو
یعنی آپس میں کسی ڈول کی تکرار نہ ہو
غیر کو صحبتِ دلدار میں کیوں بار نہ ہو
یعنی کیا معنی جہاں گل ہو وہاں خار نہ ہو
دیکھ آئینے میں منہ اپنا، خریدار نہ ہو
ناک چوٹی میں بس اتنا بھی گرفتار نہ ہو
اس کو ملنے سے گرانی ہی پھر آجاتی ہے
نکہت گل کی طرح سے جو سبکبار نہ ہو
کیا خوش آیا یہ مقطع ہو کل ان کا کہنا
آدمی کیا کہ جسے بوجھ نہ ہو بھار نہ ہو
سیر تو ایک طرف لاکھ غنیمت کے یہاں
سانس لینے میں کوئی شخص گنہ گار نہ ہو
اپنے پڑ رہنے کو مسجد تو خدا نے دی ہے
اب بلا سے مری جو خانہ خمار نہ ہو
کیوں مرے چاک گریباں سے بھلا الجھا تھا
اب تو بخشا تجھے پھر آگے یہ زنہار نہ ہو
جھڑ لگا دی ہے ان آنکھوں نے تری یاد میں یاں
صدقے صدقے مرے کیوں ابرِ گہر بار نہ ہو
بختِ بیدار اگر خواب میں تجھ کو پاوے
تو وہ پھر تا بہ قیامت کبھی بیدار نہ ہو
فارغ البال ہوا سونگھ کے زلف ان کی رات
لیکن اے دل، یہ کہیں بات نمودار نہ ہو
کہہ غزل اور دعائیہ بھی انشاؔ شاید
کوئی اس یوسفِ مصری کا خریدار نہ ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.