رونقِ بزمِ جہاں تیری تمنا ختم شد
رونقِ بزمِ جہاں تیری تمنا ختم شد
ایک جلوہ تھا نظر میں، وہ بھی جلوہ ختم شد
چاند کھڑکی پہ مری اب کرنے آئے ہے فغاں
میں بھلا اس سے کہوں کیا ہاں وہ رشتہ ختم شد
کاش اسرافیل کا مجھ کو خدا دے دے مقام
سور پھوکوں اور کہوں میں، لے! یہ دنیا ختم شد
پیر کامل آپ سے پی لوں جو میں آبِ حیات
پھر پلا کر اس کو پوچھوں، جی تمنا ختم شد
منقبت، نعت و کلام و مرثیہ اور شاعری
آپ کا تھا جو بھی حصہ، کیا وہ حصہ ختم شد
کتنی جلدی آ گئی تھی شامِ فرقت ہائے رے
میں ابھی سو کے اٹھا تھا اور یہ قصہ ختم شد
کیا پتہ وہ کل ملیں یا اب ملیں روزِ حساب
یا علی مشکل کشا کر دو یہ وقفہ ختم شد
عید و رمضاں، حج، محرم، سال کا ہر ایک دن
یعنی تیرے بن کٹیں گے؟ تو وہ سپنا؟ ختم شد
ایک حسرت، ایک چاہت، آرزو اب بھی وہی
تیرے سینے پہ ہو سر، پھر درد سر کا ختم شد
میں ہوں سالارِ وفا، تم ہو امامِ با حيا
تم نے کیا سوچا کہ ہوگا عہدِ فردہ ختم شد
اس ولی کے در سے مانگی، تم وہی فریاد ہو
مت سمجھنا تم کبھی! ہوگا یہ رشتہ ختم شد
لوٹ آنا، جب بھی چاہو، در کھلا ہے حشر تک
مت کبھی یہ سوچنا، ہے گھر کا رستہ ختم شد
نام ہے اقبال میرا اور اسی کا ہے اثر
ہو بھلا کیوں میرے لہجے سے یہ شکوہ ختم شد
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.