Font by Mehr Nastaliq Web

مجھے اپنے ضبط پہ ناز تھا سر بزم رات یہ کیا ہوا

اقبال عظیم

مجھے اپنے ضبط پہ ناز تھا سر بزم رات یہ کیا ہوا

اقبال عظیم

مجھے اپنے ضبط پہ ناز تھا سر بزم رات یہ کیا ہوا

مری آنکھ کیسے چھلک گئی مجھے رنج ہے یہ برا ہوا

مری زندگی کے چراغ کا یہ مزاج کوئی نیا نہیں

ابھی روشنی ابھی تیرگی نہ جلا ہوا نہ بجھا ہوا

مجھے جو بھی دشمن جاں ملا وہی پختہ کار جفا ملا

نہ کسی کی ضرب غلط پڑی نہ کسی کا تیر خطا ہوا

مجھے آپ کیوں نہ سمجھ سکے یہ خود اپنے دل ہی سے پوچھیے

مری داستان حیات کا تو ورق ورق ہے کھلا ہوا

جو نظر بچا کے گزر گیے مرے سامنے سے ابھی ابھی

یہ مرے ہی شہر کے لوگ تھے مرے گھر سے گھر ہے ملا ہوا

ہمیں اس کا کوئی بھی حق نہیں کہ شریک بزم خلوص ہوں

نہ ہمارے پاس نقاب ہے نہ کچھ آستیں میں چھپا ہوا

مجھے اک گلی میں پڑا ہوا کسی بد نصیب کا خط ملا

کہیں خون دل سے لکھا ہوا کہیں آنسوؤں سے مٹا ہوا

مجھے ہم سفر بھی ملا کوئی تو شکستہ حال مری طرح

کئی منزلوں کا تھکا ہوا کہیں راستوں میں لٹا ہوا

ہمیں اپنے گھر سے چلے ہوئے سر راہ عمر گزر گئی

کوئی جستجو کا صلہ ملا نہ سفر کا حق ہی ادا ہوا

Additional information available

Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

OKAY

About this sher

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

Close

rare Unpublished content

This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

OKAY
بولیے