Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

جب سے باندھا ہے تصور اس رخ پر نور کا

امیر مینائی

جب سے باندھا ہے تصور اس رخ پر نور کا

امیر مینائی

MORE BYامیر مینائی

    جب سے باندھا ہے تصور اس رخ پر نور کا

    سارے گھر میں نور پھیلا ہے چراغ طور کا

    بخت واژوں سے جلے کیوں دل نہ مجھ محرور کا

    مرہم کافور سے منہ آ گیا ناسور کا

    اس قدر مشتاق ہوں زاہد خدا کے نور کا

    بت بھی بنوایا کبھی میں نے تو سنگ طور کا

    تجھ کو لائے گھر میں جنت کو جلایا رشک سے

    ہم بغل تجھ سے ہوئے پہلو دبایا حور کا

    گور کافر کس لیے ہے تیرہ و تار اس قدر

    پڑ گیا سایہ مگر میری شب دیجور کا

    حسن یوسف اور تیرے حسن میں اتنا ہے فرق

    چوٹ یہ نزدیک کی ہے وار تھا وہ دور کا

    قصر تن بگڑا کسی کا گورکن کی بن پڑی

    گھر کسی کا گر پڑا گھر بن گیا مزدور کا

    چہرۂ جاناں سے شرما کر چھپایا خلد میں

    خامۂ تقدیر نے کھینچا جو نقشہ حور کا

    حاجت مشاطہ کیا رخسار روشن کے لیے

    دیکھ لو گل کاٹتا ہے کون شمع طور کا

    زلف و روئے یار سے نیرنگ قدرت ہے عیاں

    مہر کے پنجے میں ہے دامن شب دیجور کا

    خاکساری کر جو ہو منظور آنکھوں میں جگہ

    خاک ہو کر سرمہ بن جاتا ہے پتھر طور کا

    غافلوں کے کان کب کھلتے ہیں سن کر شور حشر

    سونے والوں کو جگا سکتا نہیں غل دور کا

    پوچھ لینا سب وطن کا حال اے اہل عدم

    بیٹھ لینے دو ذرا آتا ہوں اٹھا دور کا

    عجز کرتے ہیں عدوئے جان سے بھی خاصان حق

    جھک گیا سر آگے پائے دار پر منصور کا

    موت کیا آئی تپ فرقت سے صحت ہو گئی

    دم نکلنے سے بدن ٹھنڈا ہوا رنجور کا

    جاتے ہیں مے خانۂ عالم سے ہم سوئے عدم

    کہہ دو ازخود رفتگی سے ہے ارادہ دور کا

    موذیوں کو حادثوں سے دہر کے کیا خوف ہے

    بارش باراں سے گھر گرتا نہیں زنبور کا

    چشم ساغر بے سبب ہر دم لہو روتی نہیں

    مغبچوں سے ساقیا دل پھٹ گیا انگور کا

    جاتے ہیں مے خانۂ عالم سے ہم سوئے عدم

    کہہ دو ازخود رفتگی سے ہے ارادہ دور کا

    کی نظر جس پر کدورت سے رہا خاموش وہ

    ہے اثر گرد نگاہ یار میں سیندور کا

    جلوۂ معشوق ہر جا ہے بصیرت ہو اگر

    کرمک شب تاب میں عالم ہے شمع طور کا

    مر کے یاران عدم کے پاس پہنچوں گا امیرؔ

    چلتے چلتے جان جائے گی سفر ہے دور کا

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے