جو دن پھرتے ہیں تو سامان پیدا ہو ہی جاتا ہے
جو دن پھرتے ہیں تو سامان پیدا ہو ہی جاتا ہے
شب غم لاکھ طولانی ہو تڑکا ہو ہی جاتا ہے
رہا جو شہ کی نظروں میں ترقی اس کو لازم ہے
ملا دریا سے جو قطرہ وہ دریا ہو ہی جاتا ہے
چمک ذرے میں سورج کی کرن سے آ ہی جاتی ہے
در شہ کا گدا ادنیٰ سے اعلیٰ ہو ہی جاتا ہے
تو جہ چاہیے تھوڑی سی شاہ بندہ پرور کی
فقیروں کا جہاں میں بول بالا ہو ہی جاتا ہے
جو دل سے ہو رہا حضرت کا پھر اس کو کمی کیا ہے
موافق آسمان تابع زمانا ہو ہی جاتا ہے
مرے گلزار میں رنگِ خزاں کب تک جما رہتا
کہ اک دن فصلِ گل کا دور دورا ہو ہی جاتا ہے
توقع شاہ سے رکھنا کبھی خالی نہیں جاتا
یہ دیکھا ہے کہ فضلِ حق تعالیٰ ہو ہی جاتا ہے
اشارہ چاہیے پھر مشکل آساں ہو ہی جاتی ہے
سہارا چاہیے پھر بوجھ ہلکا ہو ہی جاتا ہے
کسی کا درد دل ہو بے اثر یہ غیر ممکن ہے
مریضوں پر کرم فرما مسیحا ہو ہی جاتا ہے
مسیحا جب کرم فرما ہوا پھر پوچھنا کیا ہے
دوا ہو یا نہ ہو بیمار اچھا ہو ہی جاتا ہے
تجسس شاہد مقصود کا ضائع نہیں جاتا
وہ اک دن زیب آغوش تمنا ہو ہی جاتا ہے
عقیدت جب ہوئی پوری تو کیسا پردۂ دوری
رخ محبوب دل میں جلوہ آرا ہو ہی جاتا ہے
بجا ہے اب عروسِ شاعری کا دون کی لینا
شباب آتا ہے تو جوبن دوبالا ہو ہی جاتا ہے
گل مضمون جو کل تک خشک تھے اس کا تعجب کیا
خزاں کے دور میں ہر پھول کانٹا ہو ہی جاتا ہے
نہ میں اچھا نہ میرے شعر اچھے بات اتنی ہے
جسے اچھا کہیں سرکار اچھا ہو ہی جاتا ہے
جلیلؔ زار کو دیکھو جلیل القدر کو دیکھو
لقب جو شاہ سے ملتا ہے زیبا ہو ہی جاتا ہے
تعجب کیوں کسی کو ہو ہماری سرفرازی پر
خدا کا فضل ہوتا ہے تو ایسا ہو ہی جاتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.