کس قدر جذب دل اس چشم سیہ مست میں ہے
کس قدر جذب دل اس چشم سیہ مست میں ہے
دیکھتے اس کے رم آہوئے صحرا نہ رہے
خیالِ یار کا رہتا ہے چشمِ گریاں موں
جہاں کہ چشمہ نہ جاری ہو کارواں نہ رہے
کبھی تو آئے گی ا دل میں سر خوشی کی بہار
ہمیشہ باغچے سوں موسمِ خزاں نہ رہے
جو وصل ہو بھی مسیر تو کیا کہوں احوال
دو چار یار کے منہ موں مری زباں نہ رہے
کمال اس لبِ جان بخش کے تبسّم کو
کبھی جو دیکھے یہ رنجورِ ناتواں نہ رہے
جو چاہو صاحبِ جوہر ہو خاکساری سوں
رواں کہاں ہوے شمشیر اگر فساں نہ رہے
کبھی جو دیکھے اس ابرو کی کج کلاہی کو
کمر میں چرخ کی شمشیر کہکشاں نہ رہے
عجب کہ یاد میں وہ زلفِ مشک سا نہ رہے
وہ کون سر ہے کہ جس سر میں یہ ہوا نہ رہے
جو آہ سرد مری واں تلک کبھی پہنچے
چمن میں صبح کے تئیں جنبشِ صبا نہ رہے
یقیں کہ شاہی کو نہیں اس کے تئیں بخشے
جو اس کے در پہ کرے سجدہ وہ گدا نہ رہے
کہاں ہے روح میں عشاق کی نشانِ قرار
کہ دشت ریگ رواں بیچ نقش پا نہ رہے
جسے شعور ہے کچھ بھی وہ اس قدر جانے
قضا بھی کچھ ہے اگر بندۂ رضا نہ رہے
یہ بادیہ میں محبت کے دلیل نہ جا
کہ کارواں کو خطر ہے جو رہ نما نہ رہے
خطر ہے بحر خرد میں اگر جنوں نہ ہووے
جہا ز غرق ہو گر اس میں ناخدا نہ رہے
فراقِ یار میں عاشق کا دل کھلے کس جا
جو صحن گلشنِ فردوس میں فضا نہ رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.