کیا قباحت ہے اگر آج ہی دیدار بھی ہو
کیا قباحت ہے اگر آج ہی دیدار بھی ہو
فرض ہے حشر بھی ہو مجمعِ اغیار بھی ہو
قتل ابرو سے کرو یا کرو مژگاں سے ہلاک
کیا ضرورت ہے کہ نیزہ بھی ہو تلوار بھی ہو
طالب جلوہ سے یہ شرط عجب ہے ان کی
دشت ایمن کا بھی ہو اور شب تار بھی ہو
مذہبِ عشق میں کامل ہے وہی اے زاہد!
ہاتھ میں سبحہ بھی ہو دوش پہ زنار بھی ہو
زینت دل ہے تری یاد مژہ کا رہنا
حسن گل کا ہے یہی اس میں کوئی خار بھی ہو
یاد میں کیوں رخ روشن کے جلاتے ہو ہمیں
دل مرا طور کیا نور بھی ہو نار بھی ہو
لطف ہے دشت نوردی کا یہی جوش جنوں
آبلہ پاؤں میں ہو وادئی پرخار بھی ہو
پا پیادہ چلوں کس طرح عدم کو اے موت!
ناتوانی سے یہاں طاقتِ رفتار بھی ہو
قیس و فرہاد سا کیا دشت نوردی کرنا
اپنے قابل کوئی صحرا کوئی کہسار بھی ہو
جلوہ اس یار کا ہر ذرہ سے ظاہر ہے کششؔ
ہاں نظر والا کوئی طالبِ دیدار بھی ہو
- کتاب : Al-Mujeeb, Phulwari Sharif (Pg. 71)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.