ذکر اُس آتش کے پرکالے کا جب آجائے ہے
ذکر اُس آتش کے پرکالے کا جب آجائے ہے
برق گھبرا جائے ہے اور شعلہ تھّرا جائے ہے
کیوں نہ ہو ممنون سیلِ اشک میرا چشمِ زار
اس کے کوچہ کی طرف تنکا سا بہتا جائے ہے
دل تڑپنے سے پھرا جاتا ہے اے وعدہ خلاف
رات کے آنے کی تو جس روز ٹھیرا جائے ہے
دم بدم ہمدم نہ دم دے دم تو لے آتا ہے وہ
خاک لوں میں دم کہ اُس بن دم بھی نکلا جائے ہے
یہ ہوئی حالت میری افتادگی کے ہاتھ سے
راہ میں نقشِ قدم جیسے کہ روندا جائے ہے
بوسہ کیوں لیتا نہیں اس کے زنخداں کا دلا
کوئی بھی آکر کنویں پر سے پیاسا جائے ہے
ذکر یہ میرا جو اس کے ہم نشینوں نے کیا
دم بدم تیرے مریضِ غم کو غش آجائے ہے
دوست دشمن سب چلے آتے ہیں لینے کو خبر
تو بھی گھر تک وہاں چلے کیا اس میں تیرا جائے ہے
دیکھنا شوخی کہا سن کر کہ جاؤں کس طرح
جو ہے اُس کا حال اب وہ کس سے دیکھا جائے ہے
اس زمیں میں اک غزل معروفؔ لکھ تو اور بھی
قافیے لاکھوں ہیں اس میں فکر کی کیا جائے ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.