تصور یار کا ہے اور میں ہوں
تصور یار کا ہے اور میں ہوں
یہی اب مشغلا ہے اور میں ہوں
جدائی کے سوا جینے کا ہے غم
غضب ہے وہ جدا ہے اور میں ہوں
دلِ بیتاب یہ کہتا ہے میرا
کہ اک قبلہ نما ہے اور میں ہوں
جو لپٹے پاؤں سے اس شوخ کے رات
تو پھر اب کی حنا ہے اور میں ہوں
اٹھایا ہاتھ الفت سے بتاں کی
بس اب یادِ خدا ہے اور میں ہوں
جو پوچھو کوچہ گردوں کو جہاں کے
تو ایک باد صبا ہے اور میں ہوں
گہے امید ہے گہہ یاس ایماں
سدا خوف ورجا ہے اور میں ہوں
اُدھر تیری جفا ہے اور تو ہے
ادھر میری وفا ہے اور میں ہوں
جو تو مرغِ سحر بولا شبِ وصل
تو پھر تیرا گلا ہے اور میں ہوں
خدا ہی ہے رہائی زلف سے ہو
کہ اب دامِ بلا ہے اور میں ہوں
گدا کو چاہئے کیا فرش قالیں
یہ میرا بوریا ہے اور میں ہوں
کوئی کعبہ کو جاتا ہے تو جائے
درِ پیرِ مغاں ہے اور میں ہوں
نہیں یاں شعر کچھ بن بات معروفؔ
یہی اب تذکرہ ہے اور میں ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.