محشر شانِ خیال و وہم آب و گل کہاں
محشر شانِ خیال و وہم آب و گل کہاں
یہ مگس رانی پہ غافل ہوگیا مائل کہاں
اے کہ مرہون وسائل ہوگیا غافل کہاں
یہ ہجوم جہل ہے ہمدم تو مستقبل کہاں
تیری نظریں غیر کی جانب ارے یہ شرک ہے
تو کہاں یہ گندگی میں اے مرے سائل کہاں
آسمانوں کی بلندی آج بھی ہے منتظر
ایکہ محجوب علائق یہ تری منزل کہاں
جرعۂ الفت گراں تر ہوگیا ہے دہر میں
محفلیں گورہ گئی ہیں سید محفل کہاں
خام ہے نا آشنائے زورِ طوفاں طور ہی
لے کے آیا ہے مجھے یہ اضطراب دل کہاں
لوح ہستی آیت تخلیق عالم کا ثبوت
مسئلہ یہ ہے کہ یہ آیت ہوئی نازل کہاں
یہ مہ و خورشید کی مجلس تو ہے اے ہم نفس
یہ صفاتِ عالیہ کا مظہر کامل کہاں
ذاکر و مذکور کیا ہے عالم و معلوم کیا
لذت مقصد جو طوفانوں میں ہے ساحل کہاں
حضرت موسیٰ سے پوچھے کوئی ان احوال کو
قول سنتا ہوں مگر دراصل ہے قائل کہاں
کیا سراب زندگی ہے دوڑتا جاتا ہوں میں
سعیٔ پیہم کا مگر سالکؔ میرے حاصل کہاں
- کتاب : خمار (Pg. 20)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.