جلانا مارنا عاشق کا اپنے ان کو یکساں ہے
جلانا مارنا عاشق کا اپنے ان کو یکساں ہے
نگہ میں زہر قاتل ہے لبوں میں آب حیواں ہے
یہی دن رات عارض سے کلام زلف جاناں ہے
کہ میں ہوں دھرم ہندو کا تو ایماں مسلماں ہے
موئے پر بھی تکلف کا ہے خواہاں کشتۂ گیسو
لحد پر شا میانہ دے رہی شام غریباں ہے
شب غم میں نکل جاتے ہی تن سے جان گھبرا کر
مرا نالہ ہے یا چنگھاڑتا شیرنیستاں ہے
کہیں گر حور ہم تجھ کو نہیں ہے کچھ قصور اپنا
گلی تیری بہشت خلد ہے دربان رضواں ہے
جدا ہے کبک کی رفتار الگ رفتار ہے اس کی
بھلا کس طور دوں نسبت یہ انساں ہے وہ حیواں ہے
ہزاروں العطش کہہ کہہ کے دے دیتے ہیں دھوکے سے
جسے اندھا کنواں کہتے ہیں وہ چاہ زنخداں ہے
مرے آنکھوں میں جب سے گھر کیا ہے یار مہوش نے
کرن خورشید محشر کی بنا ہر موئے مژگاں ہے
تمہارے منھ پہ کیا کیا پہیلیاں ہوتی ہیں عالم میں
کوئی کہتا ہے پوتھی ہے کوئی کہتا ہے قرآں ہے
خدائے غیب داں پر آشکارا حال ہے سب کا
کرے وصف دہن کیا کوئی وہ یک نقد پنہاں ہے
تجاہل سے جو پوچھا نام گیسو کا تو فرمایا
ستم ہے قہر ہے کالی بلا ہے آفت جاں ہے
دوشالہ اوڑھ لو کمرے میں کیا آرام کرتے ہو
مسہری میں لپٹ کر سورہیں ہم تم زمستاں ہے
خدا کے واسطے منہ پر نقاب اپنے نہ رکھو تم
تہہ برقع رخ روشن چراغ زیر داماں ہے
شب فرقت میں سایہ کا گماں ہوتا ہے سایہ پر
چراغ خانہ اپنا دیدۂ غول بیاباں ہے
کسی صورت نہیں ممکن رسائی اُن کی قدموں تک
برنگ ماہ کوسوں دور وہ خورشید تاباں ہے
بیاں ہوتی ہیں اعجاز لب جاں بخش جاناں کی
یہی ہے وجہ جو پانی سے پتلا آب حیواں ہے
شب غم میں یہ رویا خون یا وہ لعل رنگیں میں
مرا آنکھوں کا ڈھیلا ہوگیا لعل بدخشاں ہے
مُسن ہو کر ہوا ہے فیضؔ عاشق یار کمسن کا
دل دانا ہمارا ہوگیا پیری میں ناداں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.