تم نے جب بے پردہ اپنا روئے رخشاں کر دیا
تم نے جب بے پردہ اپنا روئے رخشاں کر دیا
مہر محشر کو چراغ زیر داماں کر دیا
ہم نے اپنے دل کو پیش روئے جاناں کر دیا
آئینہ کو آئینہ دکھلا کے حیراں کر دیا
بعد مردن بھی نہ چھوڑا ساتھ وحشت نے مرا
مجھ کو یاروں نے لحد میں دفن عریاں کر دیا
روز و شب وصف ملیحانِ دکن میں محو ہوں
میں نے اپنے کام شیریں کو نمک داں کر دیا
اپنے پرچھائیں سے کوسوں بھاگتا ہوں ان دنوں
مجھ کو وحشت نے زمانہ سے گریزاں کر دیا
یک جہاں مارا گیا عشق لب جاں بخش میں
تم نے عالم کو غریق آب حیواں کر دیا
کیا خدا کو منہ بتا دیں ہم بتوں کے عشق میں
پیس ڈالا مجھ کو اور مجلس کو حیراں کر دیا
کر دیا ہے اس کے گیسو نے مرے دل کو سیاہ
رخ نے جس کافر کے ہندو کو مسلماں کر دیا
تھے پس مردن سگ محبوب کی خاطر عزیز
ہڈیوں کو ہم نے وقف کوئے جاناں کر دیا
مر گئی پھر بھی نہ چھوڑا عشق گیسو نے مجھے
دفن یاروں نے تہہ دیوار زنداں کر دیا
جی میں آتا ہے کہ گھر میں سو رہیں کچھ کھا کے ہم
اپنے در کا یار نے غیروں کو درباں کر دیا
ہم نے چند اوراق وصف گل میں لکھے تھے کہیں
نام ان کا شیخ سعدی نے گلستاں کر دیا
بدو خلقت سے تعشق تھا دہان یار سے
فیضؔ مجھ کو حق نے پیدا کرکے پنہاں کر دیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.