اب اٹھنا ہی پڑا اس آستاں سے
اب اٹھنا ہی پڑا اس آستاں سے
کہ بحثیں روز کی ہیں پاسباں سے
کہیں گے حشر میں سب اپنی اپنی
سنیں گے سب کی وہ سب کی زباں سے
رہے تو خلق میں آباد اے قبر
مجھے راحت ملی بڑھ کر مکاں سے
جدا ہونا مرے پہلو سے ان کا
نہیں کچھ کم فراق جسم وجاں سے
اگر سچ مچ قیامت ہے کوئی شے
تو بس اٹھے گی وہ کوئے بتاں سے
وہ مئے کش ہوں کہ پیتا ہوں نئی روز
اترتی ہے نئی روز آسماں سے
کیا جرم محبت کا خود اقرار
بنے مجرم ہم آپ اپنی زباں سے
جفائے چرخ کا تربت میں کیا خوف
کہ اب باہر ہوں حدِّ آسماں سے
فہیمؔ اک دن جو کھینچوں گرم آہیں
تو برسوں آگ برسےآسماں سے
- کتاب : تذکرہ شعرائے اتر پردیش جلد دسویں (Pg. 234)
- Author : عرفان عباسی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.