خودی میں جب تک کہ میں چھپا ہوں بشر کی صورت میں آ رہا ہوں
خودی میں جب تک کہ میں چھپا ہوں بشر کی صورت میں آ رہا ہوں
خودی گئی جب خدا رہا تب عجیب جلوہ دکھا رہا ہوں
نمک کی رنگت نظر نہ آوے جو پانی میں کوئی اسے ملا دے
نہ رنگ پانی کا بدلا جاوے اسی طرح میں سما رہا ہوں
ہے رنگ پانی کا آشکارا نہاں نمک اس میں تھا یہ سارا
عیاں ہو چکھنے سے جیون خدارا میں عشق میں ایسے پا رہا ہوں
جو رنگتیں مجھ میں جلوہ گر ہیں حقیقتاً یہ تو بے اثر ہیں
وجود خوابِ عدم ہے گویا یہ خواب میں سن سنا رہا ہوں
میں ہی صدف اور میں ہی ہوں گوہر میں ہی ہوں غواص لا مکانی
ہے بحر وحدت کا پُر معانی ہزاروں غوطے لگا رہا ہوں
مثال سبق الف ہوں حقا میں مبتدی اور منتہی ہوں
میں خود ہی سویا ہوں بسترے پرو خود ہی بیٹھا جاگا رہا ہوں
اگر چہ ہوں مرغ لا مکانی و لیکن اب تو اے یار جانی
قبائے خاکی کو بر میں لے کر جہاں میں محسنؔ کہا رہا ہوں
- کتاب : دیوانِ محسن (Pg. 39)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.