کیا خزاں ہے گلشن امید پر چھائی ہوئی
کیا خزاں ہے گلشن امید پر چھائی ہوئی
نرگس چشمِ تصور تک ہے کمھلائی ہوئی
ہوں وہ افسردہ کسی گل پیرہن کے ہجر میں
میرے دامن تک کی کلیاں بھی ہیں مرجھائی ہوئی
یار کے کیف خماری نے کیا مستوں کو چور
ساغر مے وہ جما ہے خم وہ انگڑائی ہوئی
سادگی کی قدر کچھ عہد جوانی نے نہ کی
جو امنگ آئی طرفدارِ خود آرائی ہوئی
رفتہ رفتہ یہ بڑھا ہے اس کو عاشق سے حجاب
یاد بھی اب دل میں آتی ہے تو شرمائی ہوئی
جان کر کشتہ مجھے اس شرمگیں کی شرم کا
تیغ بھی چلتی ہے گردن پر تو شرمائی ہوئی
اس غزل کہنے میں ہے تعمیل ارشاد امیر
بعد مدت آج محسنؔ خامہ فرسائی ہوئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.