سر جدا میرا جو قاتل نے کیا اچھا ہوا
سر جدا میرا جو قاتل نے کیا اچھا ہوا
بار تھا تن پہ میرے، بہجت مگر جاتا رہا
توبہ شکن ہے اب کی تو موسمِ بہار کا
شیشہ لیے ہے سرد لبِ جویبار کا
گھیرے رہے ہیں سانپ یہ مجھے خواب میں سے آہ
سودا ہے جب سے زلفِ سیاهِ نگار کا
طفیلِ اہلِ گلشنِ ہند میں پیدا ہوئی ہے صلح
خدا جانے تجھے کیوں قصد ہے مجھ سے لڑائی کا
- کتاب : تذکرہ آثار الشعرائے ہنود (Pg. 28)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.