معکوس پڑا جام تھا گرمان تھی صراحی
معکوس پڑا جام تھا، گرماں تھی صراحی
محفل میں جو شب کو وہ دلارام نہ آیا
چشمِ تر تو نے مجھے تو خوب ہی رسوا کیا
عشق میں رکھتا تھا اک پردہ نشیں کا کیا کیا
کون سا سروِ چراغاں اس چمن سے اٹھ گیا
غم میں جس کے ہر گل اپنا پیرہن پھاڑا کیا
زیرِ فلک جو شب کو اک ابر سا اٹھا تھا
دودِ سیاہِ یار و اپنی ہی آہ کا تھا
برقِ نظر سے تیری کوچہ میں حشر سا تھا
کوئی تو مر گیا تھا، کوئی تڑپ رہا تھا
شعلۂ رخاں نے بہجت یہاں تک مجھے چلایا
آخر کو بعدِ مردن بھی آگ میں رکھا تھا
- کتاب : تذکرہ آثار الشعرائے ہنود (Pg. 28)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.