چھپاؤں کیوں کر اس پردہ نشیں کی عشقِ پنہاں کو
چھپاؤں کیوں کر اس پردہ نشیں کی عشقِ پنہاں کو
فغان کو، سوزِ دل کو، رنگِ رخ کو، چشمِ گریاں کو
غضب میں ہوں میں اس سوداؔ سے اب کس کس کو دوں جان کو
نگہ کو، ناز کو، ابرو کو، لب کو، رخ کو، مژگاں کو
تیرا ثانی نہیں کوئی جہاں میں تجھ سے کیا نسبت
پری کو، حور کو، غلمان کو، مہ کو، مہرِ تاباں کو
جو بولا وصل کی شب آپ کی پھر جلتا نچوڑوں گا
مؤذن کو، جرس رَن کو اور اس مزعِ سحر خواں کو
یہی ہم عشق بازی کی بدولت لے چلے آخر
قلق کو، پاس کو، افسوس کو، حسرت کو، ارماں کو
ہوا ہوں اب تو میں عاشق بتوں کا چھوڑ کر بہجتؔ
پیغمبر کو، خدا کو، دین کو، ایمان کو، قرآن کو
- کتاب : تذکرہ آثار الشعرائے ہنود (Pg. 30)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.